Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ارکانِ پارلیمان کتابیں پڑھتے ہیں؟

دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت ہے، وہاں عوامی نمائندوں کا سب سے بنیادی کام عوام کی فلاح کے لیے قانون سازی ہوتا ہے۔
اس قانون سازی کے لیے وہ عوام کو درپیش مسائل اور ان کے حالات میں بہتری کے لیے ان کے روز مرہ کے امور کے مشاہدے کے علاوہ نت نئے موضوعات پر تحقیق اور مطالعے کے بعد قانون سازی کرتے ہیں۔
اس قانون سازی کے لیے وہ حالات حاضرہ، قانون، تاریخ اور سماجیات  کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم یا نئے قوانین کی تشکیل کے لیے بل پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اراکین پارلیمنٹ آئین میں ترامیم اور نئی قانون سازی کے لیے آئے روز بل پیش کرتے رہتے ہیں۔
ان بلوں کی تیاری اور ان سے متعلق تاریخی اور قانونی حوالوں میں مدد کے لیے پاکستانی پارلیمینٹ میں دو وسیع لائبریریاں قائم کی گئی ہیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قائم کی گئی الگ الگ لائبریریوں میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد کتب، درجنوں اخبارات اور رسائل رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں قیام پاکستان کے بعد اور برطانوی انڈین دور میں تشکیل پانے والی اہم پارلیمانی اور قانونی دستاویزات کے مسودے بھی موجود ہیں۔
صرف قومی اسمبلی کی لائبریری میں 85 ہزار کتابیں ہیں جو تقریباً ہر موضوع پر ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر قانون، معلومات عامہ، تاریخ، سیاسیات، معیشت، جغرافیے اور آپ بیتیوں پر مشتمل ہیں۔
قومی اسمبلی کی لائبریری میں ہر سال 25 لاکھ روپے کی کتب، رسائل اور جرائد کا اضافہ کیا جاتا ہے جب کہ سینیٹ کی لائبریری جس میں اس وقت 20 ہزار کے لگ بھگ کتابیں ہیں، میں ہر سال تقریباً 20 لاکھ روپے کی لاگت سے ڈیڑھ ہزار تک نئی کتابوں اور جرائد کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ 

قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے تقریباً 30 فیصد لائبریری آتے ہیں۔۔ فوٹو: اردو نیوز

لیکن لائبریریوں کے معاملات دیکھنے والےسرکاری عہدیداروں کے مطابق صرف تیس فیصد اراکین پارلیمنٹ ہی ان کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی کتب خانے کے لائبریرین  خلیل احمد خان نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ وہ ہر ماہ آٹھ سو تک کتابیں جاری کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کتابیں اراکین اسمبلی کی بجائے اسمبلی میں کام کرنے والے سرکاری ملازم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسمبلی میں عوامی نمائندوں کی نسبت ملازمین کی تعداد زیادہ ہے۔
 لیکن مجموعی طور پر اسمبلی کے 342 اراکین میں سے تقریباً 30 فیصد ہی لائبریری سے استفادہ کرتے ہیں۔
سینیٹ کی لائبریری کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ظاہر اختر کے مطابق کل ایک سو چار سینیٹرز میں سے صرف 35، 40 ایسے ہیں جو  باقاعدگی سے لائبریری آتے ہیں۔
’104 اراکین میں سے تو 20 سے 30 فیصد ایسے اراکین ہوں گے، جو (کبھی) نہیں آئے۔‘
’سینیٹ میں صرف رضا ربانی، فاروق نائیک، راجہ ظفر الحق، بیرسٹر سیف، مشاہداللہ خان اور فرحت اللہ بابر باقاعدگی سے لائبریری آتے ہیں۔‘

زیادہ تر کتابیں قانون، تاریخ، معیشت، جغرافیے اور آپ بیتیوں پرمشتمل ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

سینیٹ کے کتب خانے میں موجود کتابوں کی اکثریت قانونی حوالوں پر مشتمل کتابوں کی ہے۔
ان کتابوں کی افادیت اس وقت سامنے آتی ہے جب اراکین قانون سازی کے لیے بل تیار کرتے ہیں۔
نئے قوانین کی تشکیل یا پرانے میں ترامیم کے لیے ان کتابوں سے پہلے سے موجود قوانین کے متعلق آ گاہی حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بہت سارے اراکین بل تیار کرتے وقت بھی ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے اور ان سے مواد حاصل کرنے کے لیے لائبریریوں میں موجود سرکاری عملے سے ان موضوعات پر حوالے فراہم کرنے کے لیے کہتے ہیں۔
ظاہر اختر نے بتایا کہ ’سینیٹرز حضرات تو زیادہ تر اپنی قانون سازی کے حوالے سے آتے ہیں نا، قانون سازی جو ہو رہی ہوتی ہے ہاؤس کے اندر، اس سے متعلقہ مواد جو انہیں چاہیے ہوتا ہے، جوریفرنس چاہیے ہوتا ہے، عموما کوشش کرتے ہیں وہی وہ ڈیمانڈ کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق جن دنوں اجلاس ہو رہا ہوتا ہے ان دنوں لائبریری میں تیس سے چالیس کے قریب اراکین آتے ہیں۔ لیکن جب اجلاس نہیں ہوتا تو پھر لائبریری میں کوئی شاذ و نادر ہی آتا ہے۔
’ جن دنوں اجلاس نہیں ہوتا ان دنوں ظاہر ہے یہاں سینیٹرز دستیاب بھی کم ہوتے ہیں۔ تو پھر دو، چار، چھ لوگ جس دن ایک کمیٹی کی کوئی میٹنگ ہوئی، اس میں آئے تو پھر وہ لائبریری میں آ جاتے ہیں۔‘

مشاہداللہ خان سمیت چند دیگر اراکین باقاعدگی سے لائبریری آتے ہیں۔ فوٹو: اردونیوز

تاہم چند ایک اراکین سینیٹ ایسے ہیں جو مطالعے کا گہرا زوق رکھتے ہیں اور لائبریری میں موجود قانون کے علاوہ دوسری کتابوں سے بھی باقاعدگی سے استفادہ کرتے ہیں۔
ظاہر اختر نے بتایا کہ ’بیرسٹر سیف ہیں، وہ بہت باقاعدگی سے ہمارے ہاں آتے ہیں لائبریری میں، اور زیادہ کتابیں جاری بھی کرواتے ہیں، وہ مطالعے کا ذوق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشاہد صاحب بھی لیتے ہیں کتابیں۔ اور فرحت اللہ بابر صاحب۔‘
سینیٹر مشاہداللہ خان نے ’اردو نیوز‘ کے سوال کہ کتنے سینیٹرز لائبریری میں کتابیں پڑھنے کے لیے آتے ہیں، کے جواب میں کہا ’اس کا اگر میں نے جواب دیا تو وہ کوئی اتنا اچھا جواب نہیں ہو گا۔ کچھ بڑے پڑھے لکھے دانشور ٹائپ لوگ بھی ہیں، جن کی بڑی بڑی معلومات ہیں۔ لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں جو اخبار بھی نہیں پڑھتے۔‘
انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری بھی نہیں ہوتا۔
مشاہداللہ خان نے کہا کہ سینیٹ کی لائبریری میں مزید موضوعات پر کتابیں رکھنے کی ضرورت ہے۔
’تاریخ سے متعلق (کتابیں) ہونی چاہئیں، اسلامی تاریخ ہونی چاہیے، پاکستان کی تاریخ ہونی چاہیے، دنیا کی تاریخ ہونی چاہیے، جیوگرافی۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: