Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ہاؤس پلاؤ کی دکان کیسے بنا؟

1903 میں جب سر جیمز بروڈ وڈ لائل نے ساندل بار میں ایک نئے شہر لائل پور کی بنیاد رکھی تو شہر کے وسط میں برطانوی جھنڈے یونین جیک کی طرز پر آٹھ بازار اور ان کے درمیان میں ایک گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا۔
یہ آٹھ بازار شہر کی قدیم ترین عمارتوں سے پُر ہیں اور انہی عمارتوں میں شہر کی تاریخ پوشیدہ ہے۔
گھنٹہ گھر چوک سے منٹگمری بازار کا رخ کریں تو سوتر کی دکانیں اور ان میں کام کرنے والے مزدور آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

مسلم لیگ ہاؤس کی اس بوسیدہ عمارت کے نیچے سوتر منڈی کا مشہور 'حاجی اختر مرغ پلاؤ' بکتا ہے۔ فوٹو اردو نیوز

بازار میں آگے چلتے جائیں تو تقریباً وسط میں دائیں جانب ایک دو منزلہ بوسیدہ عمارت دکھائی دیتی ہے جس کے ٹوٹے ہوئے درو دیوار اور نیم خمیدہ بام کسی 90 سالہ حواس باختہ بوڑھے شخص کی طرح بالکل خاموش کھڑے ہیں۔
تاریخ دانوں کے مطابق قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں پاکستان مسلم لیگ کا دفتر قائم کیا گیا تھا اور اسے علاقے کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے ملکیتی حقوق کی لڑائی اور حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ اب کسی بھی لمحے زمین بوس ہو سکتی ہے۔
فیصل آباد کے معروف تاریخ دان اشرف اشعری کے مطابق انتظامیہ کی بے حسی اور لاپرواہی کا نوحہ سناتی یہ عمارت 1904 میں تعمیر ہوئی تھی اور قیام پاکستان سے قبل اس میں 'سناتن دھرم لائبریری' قائم تھی جہاں آکر مقامی لوگ اپنی علمی پیاس بجھایا کرتے تھے۔'

1960 کی دہائی کے اوائل میں اس عمارت میں سکول قائم کیا گیا۔ فوٹو اردو نیوز

تقسیم پاکستان کے بعد اس عمارت میں مسلم لیگ نیشنل گارڈز کا دفتر قائم ہوا جو بعد میں مسلم لیگ ہاؤس بن گیا اور یہاں کئی اہم سیاسی میٹنگز اور اجلاس ہوئے۔ وقت نے پلٹی کھائی اور 1958 میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔ اسی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ تحلیل ہوگئی اور چند سال بعد یہاں میونسپل کارپوریشن کے تحت بچیوں کا پرائمری سکول قائم کر دیا گیا۔
منٹگمری بازار میں گذشتہ کئی دہائیوں سے پان سگریٹ کی دکان چلانے والے 76 سالہ محمد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں اس عمارت میں جب سکول قائم ہوا تو چند سال بعد ہی عمارت کی خستہ حالی کے باعث ایک بچی کھیلتے کھیلتے عمارت کی بالائی منزل سے نیچے گر گئی۔ ان کے بقول اس واقعے کی تاریخ کسی کو یاد نہیں مگر واقعہ کوئی نہیں بھولا۔
'وہ بچی شدید زخمی ہوئی لیکن مرنے سے بچ گئی، اس کے بعد سے یہاں پڑھانے والی استانیوں اور مقامی لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ عمارت میں جن بھوتوں کا بسیرا ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ کچھ عرصے بعد ہی بچیوں کا سکول یہاں سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا اور تب سے یہ عمارت بھوت بنگلہ بنی ہوئی ہے۔'

مقامی لوگوں کے مطابق مرغ پلاؤ کی دکان یہاں بنے 25 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ فوٹو اردو نیوز

ایک اور مقامی دکاندار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین بتاتے تھے کہ مسلم لیگ ہاؤس کا شمار شہر کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا تھا کیونکہ اس کے لکڑی سے بنے خوبصورت چبوترے اور بالکونیاں ماہر کاریگروں نے تیار کیے تھے۔

 

ان کے بقول '1990 کی دہائی میں چوہدری شیر علی شہر کے میئر منتخب ہوئے تو وہ اس جگہ کی قدر و قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں پلازہ تعمیر کروانا چاہتے تھے مگر فیصل آباد کے چوہدری فلور ملز والوں نے اس جگہ کی ملکیت کا دعوی کر دیا اور عدالت میں یہ کیس اب تک تصفیہ طلب ہے۔'
مسلم لیگ ہاؤس کی اس بوسیدہ عمارت کے نیچے سوتر منڈی کا مشہور 'حاجی اختر مرغ پلاؤ' بکتا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق مرغ پلاؤ کی دکان یہاں بنے 25 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔
اردو نیوز کے چوہدری خضر سے رابطہ کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ اس عمارت میں قیام پاکستان کے بعد اگرچہ مسلم لیگ ہاؤس قائم رہا ہے اور یہاں سیاسی سرگرمیاں بھی ہوتی رہیں مگر یہ عمارت ان کے خاندان کی ملکیت ہے اسی وجہ سے ان کا خاندان گذشتہ لگ بھگ 55 برس سے محکمہ اوقاف کے خلاف ملکیت کا کیس لڑ رہا ہے۔

 حکام کے مطابق ملکیت کے تنازعہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے اسے تاریخی عمارتوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ فوٹو اردو نیوز

پہلے یہ کیس میرے والد صاحب نے لڑا، پھر وہ انتقال کر گئے تو میں نے کیس کو فالو کرنا شروع کیا۔ پوری عمر اسی کام میں گزر گئی ہے۔
اردو نیوز کے ایک اور سوال کے جواب میں چوہدری خضر نے کہا کہ ’آپ اس عمارت سے کیا نکالنا چاہتے ہیں، اس چیپٹر کو بند کر دیں۔ اس میں کچھ نہیں رکھا۔
تاریخی عمارتوں کی بحالی کی ذمہ دار فیصل آباد ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی سربراہ بازلہ منظور نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا عمارت کی ملکیت کا تنازعہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے اسے ضلعی انتظامیہ نے تاریخی عمارتوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے عدالتی فیصلے کی منتظر ہے۔
تاریخ دان اشرف اشعری کہتے ہیں حکومت کو جلد از جلد ملکیتی حقوق کے تنازع کا حل تلاش کرتے ہوئے فیصل آباد کی سیاست کی امین اس عمارت کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنا چاہیے تاکہ شہر کی تاریخ کو نئی نسل کے لیے محفوظ کیا جا سکے۔

شیئر: