Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین نے مینڈکوں کو ترازو میں کیسے تولا؟

چین نے کورونا کے پھیلاؤ پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)
ایسے وقت جب یورپ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز بن چکا ہے اور چین جو ایک ماہ پہلے سب سے بڑا مرکز تھا اب اس کا نام اٹلی، سپین اور امریکہ کے بعد چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔
چین کے جس شہر (ووہان) سے 19 دسمبر کو پہلا مریض سامنے آیا تھا خود نہ صرف اس شہر کو ڈھائی ماہ  کے کڑے لاک ڈاؤن کے بعد معمول کی زندگی اور آمدو رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے بلکہ پورے ہوبے صوبے کو بھی بحال کر دیا گیا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ چینی حکومت نے جو بروقت سرعتی ایکشن لیا اس کے نتیجے میں اب بیرونِ ملک سے آنے والے چینیوں میں اس وبا کے اثرات تعداد کے اعتبار سے مقامی متاثرین سے زیادہ ہیں۔ چنانچہ باہر سے جو بھی ملک میں داخل ہو رہا ہے اسے سیدھا قرنطینہ میں بھیجا جا رہا ہے۔
وہی دنیا جو ایک ماہ پہلے تک چین کو کوس رہی تھی اب اس وائرس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کامیاب کوششوں پر نہ صرف چین کی تعریف کر رہی ہے بلکہ چین سے سیکھنا بھی چاہ رہی ہے اور چین جسے تین ہفتے پہلے تک اپنے جانی و معاشی مستقبل اور بقا کے لالے پڑے ہوئے تھے آج اس قابل ہے کہ وہ باقی دنیا  کے ساتھ نہ صرف اپنے تجربات و تحقیق شئیر کر رہا ہے بلکہ اٹلی، پولینڈ اور ایران سمیت متعدد ممالک کو اپنی انسانی مہارت اور حفاظتی آلات و طبی ساز و سامان بھی بھیج رہا ہے۔
اب ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کورونا کے قدموں پر گرا چین آخر اتنے مختصر عرصے میں کیسے اپنے قدموں پر کھڑا ہو پایا۔ دنیا  طرح طرح کے اندازے لگا رہی ہے مگر اس حقیر فقیر کا خیال ہے کہ جدید چینی فلسفہِ حیات میں کسی نہ کسی شکل میں یہ اقبالی تصور ضرور موجود ہے کہ
 
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
چینیوں نے بہتر برس پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ عقل جیسی نعمتِ خداوندی کا ہی اگر پوری طرح استعمال ہو جائے تو بڑی بات ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے  عقلی سوغات  کے استعمال کے دوران بحیثیت انسان غلطیاں بھی کیں مگر مایوس ہونے یا یہ راستہ چھوڑنے کے بجائے دماغ لڑا کر اپنی غلطیوں سے سیکھنا اور انہیں درست کرنا ترک نہ کیا اور اب یہ مشق چینی قوم ، قیادت اور ریاست کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ اسی کو چین میں سائنسی طرزِ فکر کہا جاتا ہے۔
دوسرا عنصر ہے مضبوط لیڈر شپ اور اس لیڈر شپ کے زریعے ریاستی رٹ کا قیام۔ اگر یہ عنصر نہ ہو تو ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں میں ڈسپلن پیدا کرنا اور انہیں ٹارگٹ کے حصول تک یکجا رکھنا اور ان کی مکمل صلاحیتوں کو اجتماعی بہتری کے لیے استعمال کرنا مینڈکوں کو ترازو میں تولنے جیسا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب ڈنڈے کے زور پر چل رہا ہے اور وہاں یک جماعتی آمریت نے قومی اتحاد کا تاثر پیدا کر رکھا ہے اور بنیادی آزادیوں اور حقوق کو اجتماعی اہداف پر قربان کرنے سے کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں برتی جاتی۔

ووہان شہر کو آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے (فوٹو: الامے)

عرض یہ ہے کہ وہ کامیابیاں جو چین نے بالخصوص پچھلے 40 برس میں حاصل کیں اگر محض ڈنڈے اور یک جماعتی آمریت کا معجزہ ہیں تو پھر مشرقِ وسطی، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو تو اس وقت چین سے زیادہ مضبوط اقتصادی طاقت اور بہتر سماج ہونا چاہیے تھا جہاں عوام آج سے نہیں سینکڑوں برس سے صرف ڈنڈے کی حکمرانی یا آمریت کی کسی نہ کسی شکل سے ہی واقف اور تابع ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی طرزِ حکمرانی بشمول جمہوریت و آمریت اگر قومی شناخت اور بقول محمد علی جناح  یقینِ محکم، اتحاد اور تنظیم پیدا کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔
نہ نری آمریت کسی قوم کو عروج پر پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی وہ جمہوریت کہ جس میں عوام کو صرف انتخابی ناٹک کا مسخرہ بنا دیا جائے مگر اصل اقتدار اشرافیہ اور ساہوکاری کے ہاتھ میں رہے کہ جن کا منشور ہی یہ ہو کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ وسائیل اور ان کے ثمرات نیچے تک پہنچانے کے بجائے صرف اپنی  اپنی آل اولاد یا کاسہ لیس شئیر ہولڈرز کے موجودہ اور آئندہ مفاد کے لیے مٹھی میں بند رکھے جائیں۔

اب لوگ چینی حکومت کی تعریف کر رہے ہیں (فوٹو: اے پی)

اگر یہ کام بیلٹ کے پردے میں ہوتا رہے تو بہت اچھا ہے اور جہاں بیلٹ ناکام ہو جائے وہاں بلٹ نکال لی جائے۔
کوئی نظریہ، کوئی نظام مثالی نہیں۔ اگر ہوتا تو پوری دنیا اس کی اسیر ہوتی۔ مثالی ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ خدا نے انسان کو جو عقل ودیعت کی ہے اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہے۔ ورنہ آگے بڑھنے کا عمل ہی رک جائے گا اور رکنا ہی موت ہے۔
میرا ایک سوال ہے۔ آج جب پوری دنیا ایک ٹچے سے وائرس سے لرز رہی ہے۔ ایسے بقائی مرحلے میں اگر شی جن پنگ کے بجائے چین میں ٹرمپ، مودی، علی خامنہ ای یا عمران خان ہوتے۔
اگر چین میں بھی ہر بھانت بھانت کے سماجی و نظریاتی گروہ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی چھوٹ ہوتی اور لاک ڈاؤن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ریاست ان گروہوں یا صوبوں پر چھوڑ دیتی یا چینی عوام اطالویوں کی طرح حکومتی اپیلوں، انتباہات اور اقدامات کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے تو بتائیے آج کی تاریخ میں ایک ارب 40 کروڑ انسانوں کا  ملک اپنی بقا کے کس مرحلے میں ہوتا اور باقی دنیا اس کے نتیجے میں کتنی بہتر یا بد تر ہوتی؟  وما علینا الا البلاغ۔۔۔

شیئر:

متعلقہ خبریں