Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعوتِ سمرقند سے دعوتِ شیراز بھلی

تکلفات سے پاک دعوت کو ’دعوتِ شیراز‘ کہتے ہیں۔ فوٹو ویکپیڈیا
میرزا غالب ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُن کے ہاں انسانی جذبات کے ہررنگ اور رویے کا اظہار موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلام غالب کا مطالعہ کرنے والا بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:
’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔‘
میرزا خوش گو شاعر اور خوش مزاج انسان تھے۔ جہاں تک ’خوش خوراکی‘ کی بات ہے تو ان کی صبح کا آغاز ہی باداموں کی ٹھنڈائی (سردائی) سے ہوتا تھا۔ چوں کہ نسلاً ایبک ترک تھے اس لیے دنبے اور بکرے کا گوشت مرغوب تھا۔ اس کے علاوہ مرغ، کبوتراوربٹیر کا گوشت بھی ’فیورٹ لسٹ‘ میں شامل تھا۔
ظہرانہ ہو یا عَشائیہ گوشت کا ناغہ ناممکن تھا۔ دال چنا مع گوشت بھی پسند تھی مگر وہ بیگم کو نہیں بھاتی تھی لہٰذا اس سے دست کش ہوگئے۔ یوں تو بیگم کو میرزا کی مہ نوشی بھی ناپسند تھی مگراسے ترک نہ کر سکے کہ ’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔‘
خیر گوشت کے ذکر سے یاد آیا کہ ہندوستان جنت نشان میں لوگ سبزی خور تھے، یہاں گوشت سے بنے نوبہ نو کھانوں کو متعارف کروانے کا سہرا ترکوں اور افغانوں کے سر ہے۔ وسط ایشیاء، ایران اور افغانستان کی بدولت یہاں خوش ذائقہ اورخوش رنگ پکوانوں کا دسترخوان سج گیا۔ آج ہم اس خوانِ نعمت میں سے قورمہ اوربریانی پر ہاتھ صاف کریں گے کہ انہیں اب بھی قبول عام حاصل ہے۔ 
لفظ ’قورمہ‘ کی اصل ترکی زبان کا لفظ ’قورماق‘ ہے، جس کے معنی ’بھونا ہوا یا تلا ہوا گوشت‘ ہیں۔
’قورمہ‘ کو ’قُرمہ‘ اور’قاف‘ کے ’غین‘ سے بدلنے پر ’غرمہ‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ خشک گوشت ہوتا تھا جسے بھوننے یا تلنے کے بعد دنبے کی چربی کے ساتھ بھیڑ کی کھال میں محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ پھر موسم سرما اور بہار میں اس محفوظ شدہ سادہ اورقوت بخش غذا کا لطف اٹھایا جاتا تھا۔

’قورمہ‘ اصل میں ترکی زبان کا لفظ ’قورماق‘ ہے۔ فوٹو فیس بک

تمدنی ترقی کے ساتھ ساتھ قورمہ بنانے اور محفوظ کرنے کا طریقہ بھی بدلتا رہا۔ ایران میں قورمہ لوبیا، پالک اور بینگن وغیرہ کے ساتھ بھی بنایا جاتا ہے اور اس نسبت سے ’قورمہ اسفانج‘ اور’قورمہ بادنجان‘ وغیرہ کہلاتا ہے۔
ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کے زیر اثر ’قورمہ‘ میں واضح تبدیلی آئی۔ اب اس کے لیے خشک گوشت اورچربی کی شرط جاتی رہی، پھر خوش بُودار مصالحوں، بادام اور کیوڑے نے اس کا رنگ و ذائقہ دونوں  بدل کررکھ دیے۔ اس کی مقبولیت کے پیش نظر کئی ایک محاورے بھی ظہور میں آگئے مثلاً ’قورمہ اُبسا بھی دال سے بھالا‘ یا خوشی کی خبر سننے پر کہتے ’قورمے کا ہاتھ ملاؤ۔‘
یار لوگ اب ’ماڈرن‘ ہوگئے ہیں قورمہ نہیں کھاتے ’پیزا‘ اڑاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ قلم قورمے کے ڈونگے سے بریانی کی دیگ میں چھلانگ دے موضوع کی نسبت سے دلاور فگار کا ایک پُر مزاح شعر ملاحظہ کریں:
یا رب مرے نصیب میں اکل حلال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
ہمارے نزدیک خلوص سے پیش کی جانے والے ’دال‘ بھی ’قورمہ‘ کا حکم رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکلفات سے پاک دعوت کو ’دعوتِ شیراز‘ کہتے ہیں۔ یعنی گھر میں جو موجود ہو بلا تکلف مہمان آگے رکھ دیا جائے۔ سچے پوچھیں تو ’دعوتِ شیراز‘ نے اپنے نام کے برعکس ہمیں خاصاً مایوس کیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ’بے تکلف‘ دعوت کا نام ’دعوتِ شیراز‘ ہے تو ’پُر تکلف‘ دعوت کو کیا کہتے ہیں؟ 
عرض ہے کہ شاندار اور پُرتکلف دعوت کو’دعوتِ سمرقند‘ کہتے ہیں، کیوں کہتے یہ تو نہیں پتا البتہ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کو ’صلائے سمرقندی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اہل زبان کے نزدیک ’صلائے سمرقندی‘ سے مراد پُرتکلف دعوت نہیں بلکہ ظاہری اخلاق اورمنہ دیکھے کی محبت ہے۔ اگریہ بات ہے تو پھرہمیں ’دعوتِ شیراز‘ قبول ہے جو پُرتکلف نہ سہی پُرخلوص تو ہوتی ہے۔ 

گوشت سے پرہیزکی صورت میں انڈہ اور آلو بریانی متعارف کروا دی گئی۔ فوٹو فیس بک

لوگ اب قورمے کی بہ نسبت بریانی شوق سے کھاتے ہیں۔ بریانی بنانے کی ترکیب ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ اس لیے ہم لفظ ’بریانی‘ سے بحث کریں گے۔ لفظ ’بِریانی‘ فارسی زبان سے متعلق ہے اور اس کی اصل لفظ ’بِریان‘ یعنی بھونا ہوا ہے۔
ایک لغت میں بریانی کی تعریف میں درج ہے: ’ ایک قسم کا پلاؤ جس میں گوشت بھون کر یا نمک سے دم پخت کرکے ڈالا جاتا ہے‘۔
یوں تو بریانی، ’پلاؤ‘ کی ہم قبیلہ تھی مگر ہندوستان کے گرم مصالحوں اورمرچوں کے امتزاج  نے اسے پلاؤ سے یکسر الگ شناخت دے دی۔ بریانی میں شامل مختلف طرح کے گوشت کی نسبت سے اس کے نام بھی مختلف ہوتے چلے گئے مثلاً بڑے کی بریانی (بیف بریانی)، چھوٹے کی بریانی (مٹن بریانی)، مرغ بریانی(چکن بریانی)، کوفتہ بریانی، مچھلی بریانی اور جھینگا بریانی وغیرہ۔ بعض صاحبانِ ذوق کے بریانی کھانے کے شوق نے گوشت سے پرہیزکی صورت میں ’انڈہ بریانی‘ اور ’آلو بریانی‘ متعارف کروا دی۔
پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مخصوص مزاج اور ماحول نے بھی اپنا اثر دکھایا، یوں دلی بریانی، لکھنؤی بریانی، حیدرآبادی بریانی، بمبئی بریانی اور سندھی بریانی کے منفرد ذائقے دسترخوان کی زینت بن گئے۔ 
قورمہ اور بریانی کے ساتھ زردہ و متنجن کا بیان ضروری ہے کہ اس کے بغیر دعوت مکمل نہیں ہوتی۔ زرد (پیلے) رنگ کے میٹھے چاول اپنی رنگت کی وجہ سے ’زردہ‘ کہلاتے ہیں۔

ایک زردہ سوئیوں کا بھی ہوتا ہے جو اکثرعید کے موقع پر بنایا جاتا ہے۔ فوٹو فیس بک

تاہم بعض ’صاحبانِ علم‘ سفید میٹھے چاولوں کو ’سفید زردہ‘ کہتے بھی پائے گئے ہیں۔ کبھی زردے کا زرد رنگ زعفران کے زور سے تھا مگر اب یہ خدمت ’food color‘ انجام دیتا ہے۔
زردے میں حسب توفیق اور ذائقہ خشک میوے، مربے، چم چم، گلاب جامن اور کھویا بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دانا لوگ زردے میں موجود خاص لوازم اس مہارت سے چنتے ہیں کہ بعد میں آنے والے کو محض میٹھے چاول ہی نصیب ہوتے ہیں اوروہ اس صدا کی  سراپا تصویر بن جاتے ہیں: ’پیرسائیں آندا اے تے مٹھے چُول کھاندا اے‘۔
ایک زردہ سوئیوں کا بھی ہوتا ہے جو اکثر گھروں میں عید وغیرہ پر بنتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہندوستان میں ’زردہ‘ کا لفظ بہت سی چیزوں کے لیے مستعمل ہے جس میں پان کے ساتھ کھایا جانے والا تمباکو بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ زرد رنگ کے گھوڑے کو بھی ’زردہ‘ کہتے ہیں۔ فارسی میں یہی گھوڑا ’زردک‘ اور ’زرتک‘ بھی کہلاتا ہے۔
اب آجائیں متنجن پر کہ اس کا ذکر بچپن سے سنتے آئے ہیں مگر کھانا آج تک نصیب نہیں ہوا، وجہ شائد اس کا ’آؤٹ آف فیشن‘ ہوجانا ہے۔ تاہم مختلف تذکروں میں اس اس کا ذکر محفوظ ہے۔ متنجن ایک مزیدار کھاجا ہے جو میٹھے چاولوں میں بادام، پستہ اور بھنے گوشت کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں حسب ذوق اور ذائقہ لیموں کا رس، زعفران اوربکرے یا بھیڑ کا گوشت بھی پڑتا ہے۔ کبھی آپ بنائیں تو ہمیں ضروریاد رکھیں۔ 
اب ہمیں اجازت دیں کہ ان خوش ذائقہ کھانوں کے بیان کے بعد ہماری بھوک چمک اُٹھی ہےآئندہ نشست میں کچھ  اور کھانوں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: