Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کھانے میں ’بٹ‘ کے مقابلے میں بادشاہ‘

آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کا دستر خوان بھی انواع و اقسام کے کھانوں کے لیے مشہور تھا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
شاید مجھے نکال کر ’کچھ کھا رہے‘ ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
شعر عبدالحمید عدم کا ہے اور پہلے مصرعے میں’کچھ کھا رہے‘ کا تصرف دلاور فگار کا ہے۔ کسی کے جانے سے کھانے کا مشروط ہونا ایک عام سماجی رویہ ہے۔ مگر کسی ’بٹ‘ کے ساتھ یہ حرکت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں ’کیوں؟
توعرض ہے کہ  پنجاب کے میدانی علاقوں میں آباد کشمیری اپنی خوش خوراکی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ پھران میں’بٹ‘ اپنی مثال آپ ہیں۔ یوں اس پُرخوری میں محبت اور رغبت بھی در آتی ہے۔
روایت ہے کہ ایک دعوت میں ’بٹ صاحب‘ نے کھانا  تناول کرتے کرتے اچانک ہاتھ روک لیا۔ میزبان نے مسرت سے پوچھا: بٹ صاحب! رَج گئے ہو؟‘۔ معصومیت بولے ’نہیں تھک گیا ہوں‘۔ ظاہر ہے اس سٹیٹمنٹ کے بعد میزبان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی ہوگی۔
بٹوں‘ کی خوش خوراکی ضرب المثل ہے۔ پنجابی زبان میں کہتے ہیں: ’جِدے ٹڈھ اُتے وٹ نئیں او بٹ نئیں‘ یعنی جس کے پیٹ پر تن و توش کی وجہ سے بَل نہیں پڑتے وہ بٹ کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ گجرانوالہ اور لاہور میں کتنی ہی طعام گاہوں کی رونقیں بٹوں کے دم قدم سے قائم ہیں۔
کہتے ہیں ناقابل شکست رستمِ زماں گاما پہلوان کا تعلق بھی ’بٹ گھرانے‘ سے تھا۔ حکیم سعید کے ’گاما پہلوان‘ سے ذاتی مراسم تھے۔’سعید سیاح جاپان میں‘ حکیم صاحب کا سفرنامہ ہے۔ اس میں وہ برسبیل تذکرہ بیان کرتے ہیں: ’میں گاما جی کے بہت قریب تھا ۔ایک بار گاما جی میرے پاس مطب میں خود تشریف لے آئے۔ اب میں یہ غور کرتا رہ گیا کہ ان کو خمیرہ ہمدرد 6 گرام لکھوں یا 6 سیر‘ ۔۔۔۔ اس کتاب میں گاما پہلوان کی ’ڈائٹ‘ کا ذکر بھی ہے۔ لکھتے ہیں: گاما روزانہ صبح ناشتے میں ایک سیر مغزِ بادام کا حریرہ اور کوئی دس سیر دودھ نوش کرتے جبکہ غذا میں 8-7 سیر گوشت کی یخنی شامل ہوتی‘۔
اسی سفر نامے میں حکیم سعید رقم رطراز ہیں :’یہ کوئی 1955 کی بات ہے کہ کراچی کے ہوٹل انٹرکونٹیننٹل میں چاندنی لاؤنج میں 15 روپے کا بوفے ہوتا تھا۔ ایک دن ’بھولو برادران‘ چاندنی لاؤنج میں پہنچ گئے اور چکن تکّوں پرہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ جب یہ برادران ایک سو سے زیادہ تکّے نوش جان کر گئے تو ہوٹل کا بوفے مینیجر بھاگا بھاگا آیا کہ آخر یہ تکّے کہاں جا رہے ہیں! اس نے دیکھا کہ تکّے بھولو برادران کے پیٹوں میں پہنچ چکے ہیں ۔۔۔ انہوں نے کہا : مینیجر جی! ابھی تو ہم نے تکّے چکھے ہیں۔ آپ تیار کرتے رہیے‘۔ واضح رہے کہ رستم ہند ’بھولو پہلوان‘ گاما پہلوان‘ کے بھتیجے تھے۔ 
ایسا ہی ایک واقعہ ’بھولو پہلوان‘ کے شاگردوں سے متعلق بھی ہے، جو اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران میں حلوائی کی دکان پہ موجود تمام مٹھائی چٹ کر گئے اور کڑاؤ میں موجود دسیوں لیٹر دودھ بھی ڈکار گئے۔ حلوائی نے جو یہ منظر دیکھا تو انہیں ’جن‘ سمجھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
ہمارے ایک مغل دوست کے مطابق خوش خوراک انسان مقدار پر نہیں معیار پر توجہ دیتا ہے۔ اور ہمیشہ چنیدہ کھانا کھاتا ہے۔
مثلاً؟ ۔۔۔ ہم نے تیکھے لہجے میں پوچھا
مثلاً مغل تاجدار بہادرشاہ ظفر۔
ان کی صحت سے تو نہیں لگتا کہ وہ کھانا بھی کھاتے ہوں گے ۔۔۔ ہم بھی ڈٹ گئے۔
بولے: ایسا ہے تو پھرسنو کہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار کا دسترخوان کن نعمت الوان سے سجا تھا۔ پہلے پلاؤ پر آؤ:
ﯾﺨﻨﯽ ﭘﻼﺅ، ﻣﻮﺗﯽ ﭘﻼﺅ، ﻧﮑﺘﯽ ﭘﻼﺅ، ﻧﻮﺭﻣﺤﻠﯽ ﭘﻼﺅ، ﮐﺸﻤﺶ ﭘﻼﺅ، ﻧﺮﮔﺴﯽ ﭘﻼﺅ، ﻻﻝ ﭘﻼﺅ، ﻣﺰﻋﻔﺮ ﭘﻼﺅ، ﻓﺎﻟﺴﺎﺋﯽ ﭘﻼﺅ، ﺁﺑﯽ ﭘﻼﺅ، ﺳﻨﮩﺮﯼ ﭘﻼﺅ، ﺭﻭﭘﮩﻠﯽ ﭘﻼﺅ، ﻣﺮﻍ ﭘﻼﺅ، ﺑﯿﻀﮧ ﭘﻼﺅ، ﺍﻧﻨﺎﺱ ﭘﻼﺅ، ﮐﻮﻓﺘﮧ ﭘﻼﺅ، ﺑﺮﯾﺎﻧﯽ ﭘﻼﺅ، ﺳﺎﻟﻢ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﭘﻼﺅ، ﺑﻮﻧﭧ ﭘﻼﺅ، ﮐﮭﭽﮍﯼ، ﺷﻮﺍﻟﮧ ‏( ﮔﻮﺷﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮭﭽﮍﯼ ‏) ﺍﻭﺭ ﻗﺒﻮﻟﯽ ﻇﺎﮨﺮﯼ‘۔
اتنا کہہ کر فخریہ انداز میں ہماری طرف دیکھا اور پھر سلسلہ کلام آگے بڑھایا۔ اب سالنوں اور کبابوں کا لطف اٹھاؤ:
ان میں ﻗﻠﯿﮧ، ﺩﻭﭘﯿﺎﺯﮦ، ﮨﺮﻥ ﮐﺎ ﻗﻮﺭﻣﮧ، ﻣﺮﻍ ﮐﺎ ﻗﻮﺭﻣﮧ، ﻣﭽﮭﻠﯽ، ﺑﯿﻨﮕﻦ ﮐﺎ ﺑﮭﺮﺗﺎ، ﺁﻟﻮ ﮐﺎ ﺑﮭﺮﺗﮧ، ﭼﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﺍﻝ ﮐﺎ ﺑﮭﺮﺗﮧ، ﺑﯿﻨﮕﻦ ﮐﺎ ﺩﻟﻤﮧ، ﮐﺮﯾﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﻟﻤﮧ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﯾﻠﮯ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﺩﺍﻝ، ﺳﯿﺦ ﮐﺒﺎﺏ، ﺷﺎﻣﯽ ﮐﺒﺎﺏ، ﮔﻮﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺒﺎﺏ، ﺗﯿﺘﺮ ﮐﮯ ﮐﺒﺎﺏ، ﺑﭩﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﺒﺎﺏ، ﻧﮑﺘﯽ ﮐﺒﺎﺏ، ﺧﻄﺎﺋﯽ ﮐﺒﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻨﯽ ﮐﺒﺎﺏ‘ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ۔
ذرا دیر کو دَم لیا اور گویا ہوئے: تم اب تک فقط خمیری اور پتیری (درست فطیری) روٹی سے واقف ہو، ادہر بہادر شاہ کے دسترخوان پر حسب موقع اور خواہش نوع بنوع روٹیوں اور نانوں کا بازار سجا ہوتا تھا۔
ﭼﭙﺎﺗﯿﺎﮞ، ﭘﮭﻠﮑﮯ، ﭘﺮﺍﭨﮭﮯ، ﺭﻭﻏﻨﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﺧﻤﯿﺮﯼ ﺭﻭﭨﯽ، ﮔﺎﺅﺩﯾﺪﮦ، ﮔﺎﺅ ﺯﺑﺎﻥ، ﮐﻠﭽﮧ، ﻏﻮﺻﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﺑﺎﺩﺍﻡ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﭘﺴﺘﮯ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﭼﺎﻭﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﮔﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﻣﺼﺮﯼ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ، ﻧﺎﻥ، ﻧﺎﻥ ﭘﻨﺒﮧ، ﻧﺎﻥ ﮔﻠﺰﺍﺭ، ﻧﺎﻥ ﺗﻨﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺮﻣﺎﻝ‘۔
اور میٹھے میں؟

کہتے ہیں ناقابل شکست رستمِ زماں گاما پہلوان کا تعلق بھی ’بٹ گھرانے‘ سے تھا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

بولے: میٹھے میں: ’ﻣﺘﻨﺠﻦ، ﺯﺭﺩﮦ، ﻣﺰﻋﻔﺮ، ﮐﺪﻭ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺮ، ﮔﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺮ، ﮐﻨﮕﻨﯽ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺮ، ﯾﺎﻗﻮﺗﯽ، ﻧﻤﺶ، ﺭﻭﮮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ، ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ، ﮐﺪﻭ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ،ﻣﻼﺋﯽ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ، ﺑﺎﺩﺍﻡ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ، ﭘﺴﺘﮯ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ اور ﺭﻧﮕﺘﺮﮮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ‘ ہوتا تھا۔
پھر بولے: لگے ہاتھوں اب مربے بھی چکھ لو:
ﺁﻡ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﺳﯿﺐ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﺑﮩﯽ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﺗﺮﻧﺞ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﮐﺮﯾﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﺭﻧﮕﺘﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﻟﯿﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﺍﻧﻨﺎﺱ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﮔﮍﮬﻞ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ، ﮐﮑﺮﻭﻧﺪﮮ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ اور ﺑﺎﻧﺲ ﮐﺎ ﻣﺮﺑﺎ‘۔
حکایت لذیذ تھی مگرہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ دراز ہو،لہٰذا چڑ کر کہا: ’کچھ اوررہ گیا تو وہ بھی گنوا دو‘۔مزید پڑھیں

 

بولے: کیوں نہیں، ابھی مٹھائیاں باقی ہیں۔ مٹھائیوں میں: ’ﺟﻠﯿﺒﯽ، ﺍﻣﺮﺗﯽ، ﺑﺮﻓﯽ، ﭘﮭﯿﻨﯽ، ﻗﻼﻗﻨﺪ، ﻣﻮﺗﯽ ﭘﺎﮎ، ﺑﺎﻟﻮ ﺷﺎﮨﯽ، ﺩﺭﺑﮩﺸﺖ، ﺍﻧﺪﺭﺳﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ، ﺣﻠﻮﮦ ﺳﻮﮨﻦ، ﺣﻠﻮﮦ ﺣﺒﺸﯽ، ﺣﻠﻮﮦ ﮔﻮﻧﺪﮮ ﮐﺎ، ﺣﻠﻮﮦ ﭘﯿﮍﯼ ﮐﺎ، ﻟﮉﻭ ﻣﻮﺗﯽ ﭼﻮﺭ ﮐﮯ، ﻣﻮﻧﮕﮯ ﮐﮯ، ﺑﺎﺩﺍﻡ ﮐﮯ، ﭘﺴﺘﮯ ﮐﮯ، ﻣﻼﺗﯽ ﮐﮯ، ﻟﻮﺯﯾﮟ ﻣﻮﻧﮓ ﮐﯽ، ﺩﻭﺩﮪ ﮐﯽ، ﭘﺴﺘﮯ ﮐﯽ، ﺑﺎﺩاﻡ ﮐﯽ، ﺟﺎﻣﻦ ﮐﯽ، ﺭﻧﮕﺘﺮﮮ ﮐﯽ، ﻓﺎﻟﺴﮯ ﮐﯽ، ﭘﯿﭩﮭﮯ ﮐﯽ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺴﺘﮧ ﻣﻐﺰﯼ‘۔
مٹھائیاں گنوا چکے تو تنک کر بولے: یہ سب کچھ یونہی سربازار نہیں کھاتے پھرتے تھے’ﯾﮧ ﻣﺰیدﺍر ﺭﻧﮕﺎ ﺭﻧﮓ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﻗﺎﺑﻮﮞ، ﺭﮐﺎﺑﯿﻮﮞ، ﻃﺸﺘﺮﯾﻮﮞ، ﭘﯿﺎﻟﻮﮞ اور ﭘﯿﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮏ، ﺯﻋﻔﺮﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﻣﮩﮑﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﮯ ﻭﺭﻕ ﺍﻟﮓ ﺳﮯ ﺟﮭﻠﻤﻼﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﻮﺭﺍ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ‘۔
یہ سب آپ کو کیسے پتا ؟ ۔۔۔ ہم نے شک بھرے انداز میں پوچھا۔
 
اس کتاب میں درج ہے! ‘۔۔۔انہوں نے ’انتظار حسین‘ کی کتاب ’دلی جو ایک شہر تھا‘ ہمیں تھما دی۔
ہم نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور پوچھا: ’چنیدہ پکوان کھانے والے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بعد مغل حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا نا؟
انہوں نے اثبات میں گردن ہلائی تو ہم نے نہلے پہ دہلا مارا : ’آپ کا شکریہ کہ آپ ’بٹ‘ کے مقابلے میں بادشاہ کو لے آئے۔ اب یہ بھی سنو کہ بادشاہ کے چنیدہ کھانوں کا نتیجہ کیا نکلا۔ مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں:
۔۔۔ دِلّی کے کلچر اور قیمہ کی باریکیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کباب کھانے کے ادب آداب اتنی تفصیل سے بتائے کہ ہم جیسے مارواڑی رانگڑ کی سمجھ میں بھی آ گیا کہ سلطنت ہاتھ سے کیسے نکلی‘۔
یہ کہاں لکھا ہے ؟ انہوں نے برا سا منہ بنا کر پوچھا
جواب میں ہم نے انہیں’مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’زر گزشت‘ پکڑا دی۔ اور یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے :’اگربادشاہ کی توجہ دستر خوان کے بجائے ہندوستان کے انتظام پر ہوتی تو سلطنت یوں نہ جاتی‘۔
 

شیئر: