Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلگت: مریضوں کی صحتیابی کی شرح بہتر

پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان میں کورونا سے پہلی ہلاکت ڈاکٹر اسامہ کی ہوئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی صحت یابی کی شرح 66 فیصد کے ساتھ چین کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر ہے۔  
کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک 18 لاکھ 66 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔  دنیا میں چار لاکھ 34 ہزار سے زائد افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں جو متاثرہ افراد کا 23 فیصد بنتے ہیں۔  صحت مند ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق چین سے ہے جو وہاں کے کل مریضوں کا 94 اعشاریہ 52 فیصد ہیں۔ 
صحت یابی کی سب سے کم شرح 5 اعشاریہ 82 فیصد امریکہ کی ہے۔ پاکستان میں صحت یاب ہونے افراد کا تناسب 20 فیصد سے زائد ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام گلگت جسے ایک انتظامی یونٹ یعنی صوبے کا درجہ حاصل ہے میں صحت یاب ہونے والوں کی شرح 66 فیصد ہے۔

 

گلگت بلتستان میں کورونا کا پہلا کیس 17 مارچ کو رپورٹ ہوا تھا جبکہ اب تک وہاں 1488 ٹیسٹ ہوچکے ہیں جن میں سے  224 مریضوں میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ متاثرہ افراد میں سے 149 صحت یاب ہوکر گھروں کو جا چکے ہیں اور صرف 75 مریض آئسولیشن وارڈز میں ہیں جبکہ کچھ مریضوں کے ٹیسٹوں کی رپورٹس کا انتظار ہے۔ 
گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے باعث پاکستان کے پہلے ڈاکٹر اسامہ اور ایک پیرامیڈیکل سٹاف کورونا کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اس کے باوجود صحت یابی کی شرح توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
گلگت بلتستان کے ہوم سیکرٹری محمد علی رندھاوا کے مطابق مریضوں کی صحت یابی کی شرح بہتر ہونے کی بڑی وجہ گلگت بلتستان کے زائرین کی واپسی پر ان کے لیے کیے گئے اقدامات ہیں۔ 
'زائرین کے لیے ہوٹلوں میں 1133 کمرے بک کیے گئے۔ جہاں ان کو گھر سے بہتر ماحول یعنی ایک فرد کے لیے ایک کمرہ ،وائی فائی، اٹیچ باتھ روم، نیوٹریشنز سے منظور شدہ معیاری خوراک فراہم کی گئی۔ زائرین کے بچوں کے لیے کھلونے، ان کے ذوق کے مطابق کتابوں سمیت ان کی ذہنی و جسمانی آسائش کا خاص خیال رکھا۔ ان اقدامات کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوا اور وہ کورونا پازیٹیو ہونے کے بعد نیگییٹو ہوئے۔' 

گللگت بلتستان میں طبی سہولیات کا فقدان ہے تاہم عام لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ فوٹو: اے ایف پی

محمد علی رندھاوا کے مطابق 'لاک ڈاون میں بھی سختی کی گئی، بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ بند اور سماجی فاصلے کی ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنایا گیا۔ اس حوالے سے مقامی آبادی نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کو روکنا اور صحت یابی کی بلند شرح کامیابی کی ایک کہانی ہے۔' 
گلگت بلتستان کی انتظامیہ اپنے اقدامات کو اگرچہ کامیابی کی داستان تو کہہ رہی ہے لیکن گلگت سے تعلق رکھنے والے معروف طبی ماہر ڈاکٹر شریف استوری اس صورت حال پر الگ تجزیہ کرتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'گلگت بلتستان آبادی کے تناسب سے ریکوری کرنے والوں میں بے شک پہلے نمبر ہے اور مریضوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر لیکن زائرین اور تبلیغی جماعت اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں موجود مقامی لوگوں کی آمد کے باعث وہاں کے لوگ کورونا کی زد میں آئے۔ ابتدا میں ٹیسٹوں کی سہولت بھی نہیں تھی۔ ہسپتال وہاں اس سطح کے ہیں ہی نہیں۔ آئسولیشن کے لیے ہوٹلوں وغیرہ کا انتظام بہت بعد میں کیا گیا۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ صحت یاب ہوئے یہ مقامی لوگوں کے طرز زندگی اور رہن سہن کی وجہ سے ان کے اندر پروان چڑھنے والی قوت مدافعت ہے۔' 

ووہان میں وائرس کا پھیلاؤ سامنے آنے کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

انھوں نے کہا کہ 'جس طرح زائرین، تبلیغی، طلبا اور مزدور گلگت پہنچے اگر اس طرح کسی اور صوبے یا علاقے کے لوگ کورونا کی وبا پھیلنے کے دوران ایسا کرتے تو صورت حال اس کے برعکس ہوتی۔'
اس کے علاوہ جن عوامل کو اہم قرار دیا جا رہا ہے ان میں گلگت بلتستان کی جغرافیائی حیثیت، وہاں کی پھیلی ہوئی آبادی، معاشرے میں تعلیم و آگاہی اور مذہبی و معاشرتی ہم آہنگی شامل ہیں۔ 
گلگت بلتستان کی چین، افغانستان کے ساتھ سرحدیں مکمل طور پر غیر فعال ہیں جبکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے بھی وہاں کوئی آمدو رفت ممکن نہیں۔ 
ماہر عمرانیات فضل امین بیگ نے اردونیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ووہان میں کورونا وائرس سامنے آنے کے فوری بعد چین کی سرحد پر واقع گلگت بلتستان کی تحصیل گوجال کے مقامی نوجوانوں نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے پاک چین سرحد بند رکھنے کا مطالبہ کیا۔ چین اور افغانستان سے سرحد بند ہونے کا فائدہ ہوا۔ پاکستان کے ساتھ قراقرم ہائی وے اور فضائی راستہ واحد راستہ تھا جہاں سے نقل و حرکت یا آمد و رفت ہو رہی تھی لیکن وائرس ایران سے آنے والے زائرین کی وجہ سے آیا۔'
انھوں نے کہا کہ مقامی آبادی میں تعلیم و آگاہی، مقامی تنظیموں کے فعال کردار، مذہبی رواداری نے بھی کورونا کو پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وفاق کی جانب سے نامناسب رویے کے باوجود گلگت بلتستان حکومت کی لاک ڈاون کی پالیسی بھی کامیاب رہی تاہم نماز جمعہ کے اجتماعات کے حوالے سے ابھی تک حکومت کو چیلنج کا سامنا ہے۔ اگر اس حوالے سے اقدامات نہ لیے گئے تو کامیابی ناکامی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔' 
یاد رہے کہ صدر مملکت عارف علوی، معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، چئیرمین این ڈی ایم اے اور دیگر حکام نے اتوار کو گلگت کا دورہ بھی کیا تھا۔
گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے کے باوجود صدر مملکت نے مقامی حکومت اور انتظامیہ کے کورونا کے حوالے سے اقدامات کو سراہا تھا جبکہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اپنی پریس کانفرنس کے دوران گلگت بلتستان حکومت کی کارکردگی اور فعالیت کی ستائش کی تھی۔ 

شیئر: