Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے علاج میں پاکستانی ڈاکٹروں کی اہم پیشرفت

تحقیقاتی ٹیم مارچ میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی (فوٹو: اردو نیوز)
کراچی کے ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن (آئی وی آئی جی) تیار کر لی گئی ہے جس کے ذریعے کورونا کے مریضوں کا علاج ممکن ہو سکے گا۔
پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی کا کہنا تھا کہ 'کووڈ 19 کے طریقہ علاج پر تحقیق یونیورسٹی کے ڈاکٹر اور محققین نے ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں کی۔'
اسے کورونا وائرس کے علاج میں اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے علاج کے لیے امیونوگلوبیولن کا طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے۔ امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے منظورشدہ یہ طریقہ علاج محفوظ اور کورونا کے خلاف انتہائی مؤثر ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا ہے کہ 'اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے۔'
تحقیقاتی ٹیم نے کووڈ 19 کے صحت یاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیر مؤثر کر چکے تھے۔ ان کی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کر کے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے ترجمان ماجد اسلام نے اُردو نیوز کو بتایا کہ 'امیونوگلوبیولن کو منظوری کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بھجوا دیا گیا ہے اور جیسے ہی اس کے استعمال کے حوالے سے اجازت ملے گی تو ڈاؤ ہسپتال میں ہی زیرِ علاج کورونا وائرس کے مریضوں پر اس طریقہ علاج کو عمل میں لایا جائے گا۔'

ڈاؤ ہسپتال کی دوا منظوری کے لیے ڈریپ کو بھجوا دی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے مختلف ہے۔ ہائپر امیونو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکہ کے وفاقی ادارے  فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے عمومی حالات کے لیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے۔
اس سے قبل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی بھی کورونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کے پلازما سے اس بیماری کا علاج کرنے کی تجویز دے چکے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے انہیں اس حوالے سے تجربات کرنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد انہیں پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے صحت یاب مریض یحییٰ جعفری نے اپنے خون سے پلازما کا عطیہ بھی دیا تاکہ مریضوں کے لیے غیر متحرک مامونیت (پیسیو امیونائزیشن) کا مؤثر طریقہ علاج وضع کیا جا سکے۔

اس طریقہ کار میں مکمل پلازمہ کے بجائے صرف اینٹی باڈیز لیے جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاؤ یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ 'تحقیقاتی ٹیم ابتدائی طور پر مارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ بعد ازاں اس کے پلازما سے اینٹی باڈیز کو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوگئی۔'
 'اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد، جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں، انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کر لی جاتی ہے۔'
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے جو کورونا بحران میں امید کی کرن تصور کی جا رہی ہے۔

اس نئے طریقہ علاج کی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاؤ یونیورسٹی کے طبی ماہرین کے مطابق 'یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت (پیسیو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں۔'
 'اس محفوظ اور موثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس، مرس، اور ایبولا میں موثر طور پر استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ تشنج، انفلوئنزا اور رےبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کے لیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔'
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے ٹرائل کے لیے اخلاقی اور قانونی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے۔

دنیا کی ویکسین بنانے والی 6 کمپنیوں نے اس عمل کے آغاز کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

مشترکہ ٹیم کے دیگر ارکان میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی، سید منیب الدین، میر راشد علی، عائشہ علی، مجتبٰی خان، فاطمہ انجم اور ڈاکٹر صہیب توحید شامل ہیں۔
یہ کامیابی کورونا سے ہونے والے جانی نقصان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کی جانے والی کوششوں میں سے ایک اہم قدم ہے۔ ایک ہفتہ قبل ہی دنیا کی چھ بڑی ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اشتراک کا اعلان کیا تھا۔ ڈاؤ یونیورسٹی نے اس عمل میں سبقت لیتے ہوئے مقامی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کر لی ہے۔
حالیہ دنوں کی ریسرچ نے مقامی کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

 صحت یاب مریضوں کے پلازمہ سے علاج کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی آئی وی آئی جی بہت موثر اور مفید ثابت ہوگی۔ ڈاؤ یونیورسٹی نے نئے کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کر کے جینیاتی سیکوینس معلوم کیا، انسانی جین میں ایسی تبدیلیوں کا پتا لگایا جو کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں، اور اب صحت یاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈی سے انٹرا وینس امینوگلوبیولن تیار کرلی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں