Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی خوشخطی کے چھ نمایاں رسم الخط

روشن تاریخ میں نمایاں مقام رکھنے والی عربی خوش خطی کی چھ مختلف رسم الخطوط میں درجہ بندی کی گئی ہے جو معروف عباسی ماہر تعلیم اور وزیر ابن مقلا نے وضع کیے۔ 
وہ 885 یا 886 میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ ایک مخصوص رسم الخط جو فارسی کے ایک استاد خوش نویس نے ایجاد کیا ہمیشہ سے بہت مشکل سمجھا جاتا رہا ہے وہ لکھنے والے سے بہت زیادہ لگن اور محنت کا متقاضی ہے اور وہ ہے تُلت رسم الخط۔
لکھائی کا یہ طرز بہت شاندار اور اہم ہے یہ ایک قسم کا ٹیسٹ ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا اسے لکھنے والا یا والی اس فن کا ماہر ہے یا نہیں۔
’عربی خوش خطی میں تلت رسم الخط تمام خطوط کی ماں ہے کیونکہ بہت زیادہ خوش نویس اس پر کام کر چکے ہیں‘، یہ بات سعودی آرٹسٹ عبدالعزیز الراشدی نے عرب نیوز کو بتائی، وہ 1980 یعنی اپنے بچپن سے دنوں سے اس رسم الخط پر کام کرتے آ رہے ہیں۔

’ایک خوش نویس کو تب تک اچھا خوش نویس قرار نہیں دیا جا سکتا جب تہ تلت رسم الخط نہ لکھ سکے کیونکہ یہ بہت مشکل ہے۔‘
جمالیاتی طور پر بھی تُلُت رسم الخط بہت گہرا ہے جس کا دائرہ اموی خلیفہ کے ساتویں صدی کے دور تک ہے۔
یہ رسم الخط بہت نمایاں طور پر قلم برداشتہ، جاذب نظر اور ایک مشکل انداز میں حروف کو ایک دوسرے میں پرو کر ان کے سِروں اور دوسرے حصوں پر اعراب لگا کر لکھا جاتا ہے۔

الراشدی نے کہا کہ تُلُت رسم الخط میں ان کی اہمیت یوں ہے کہ اس سے لکھائی کی خوبصورتی بڑھتی ہے۔
ڈاکٹر تینجا تولر جو عرب پینٹنگ کی تاریخ لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز میں پڑھاتی ہیں، انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’یہ ایک وسیع رسم الخط ہے جو نرمی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ اگر خط کوفی اپنی خوبصورتی اور سخت رولز کے زیرسایہ ہے تو تُلت خط اس سے بھی زیادہ خصوصیات رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا ’اس وقت بھی خوش نویسوں کے لیے تلت کے حوالے سے رولز ہیں جن کی پابندی کی جاتی ہے لیکن ہاتھ زیادہ آزادی کے ساتھ دیگر سمتوں میں بھی چلتا ہے ضروری نہیں کہ صرف عمودی طور پر ہی چلے۔ ہم عصر خوش نویسی کے حوالے سے یہ بات درست ہے کہ تلت کو خصوصی طور پر جمالیاتی اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تلت میں لکھا جانے والے الفاظ کسی جانور یا شخص کی شکل میں ہو سکتے ہیں۔

ایس او اے ایس میں خوش نویسی کا کورس کرانے والے کرامت فاتھنیا نے عرب نیوز کو بتایا کہ تلت کو خصوصی طور پر پڑھنے میں آسانی، الفاظ کے درمیان خلا اور اعرابی علامات کی بدولت تیزی سے لکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔  
انہوں نے اس کی ایک اور خصوصیت شش پہلو نشان کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ جو ابن مقلا نے الفاظ کے تناسب کی پیمائش کے لیے وضع کیا تھا۔
’کوفی خط میں سبز، نیلے اور پیلے نقطوں پر مشمتل تحریر کے مقابلے میں تلت میں موٹے نقطے پڑھائی کے عمل کو آسان بناتے ہیں‘

عربی میں لفظ تلت کا مطلب ہے ایک تہائی، اور یہ خصوصیت رسم الخط کے تمام جمالیاتی نکات کو ظاہر کرتی ہے۔
تولر نے کہا ’تلت اپنے بڑے الفاظ اور ڈھلوان کی وجہ سے دیگر خطوط سے ممتاز ہے۔ اس میں ایک لفظ کا ایک تہائی حصہ ڈھلوان میں ہو گا‘

’ایک تہائی‘ کے نکتے کے حوالے سے محققین کا کہنا ہے کہ اس کی ممکنہ وجہ بڑے سائز کا قلم ہو سکتا ہے جو سلطان اور خلیفہ اس وقت سرکاری دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 
اینگولر اور قدیم کوفی رسم الخط کے برعکس تلت قرآن کی لکھائی کے لیے بہت کم استعمال ہوتا تھا لیکن عام طور پر بڑے تعمیراتی منصوبوں کی بناوٹ جیسے گنبد، پتھر اور لوہے کے کام وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

تولر نے کہا: ’اس کی جمالیاتی خوبیوں یعنی بڑے الفاظ اور ڈھلوانی جھکاؤ کی وجہ سے اس کو کندہ کاری کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے جیسا کہ میناکاری اور سونا چڑھے مساجد کے چراغوں کے شیشوں پر یہ کام ہوا، جو مملوک دور میں چودھویں صدی میں شام اور مصر میں بنائے گئے‘
الراشدی نے کہا ’تلت رسم الخط اپنے اندر ایک خاص تقدس بھی رکھتا ہے اگر آپ کچھ مساجد کو دیکھیں جیسا کہ مسجد الحرام، کعبہ میں بھی آپ اس کی لکھائی ملے گی۔‘
ان باتوں کے تناظر میں یہ طاقتور رسم الخط عموماً وضاحت کے طور پر نظر آتا ہے، جبکہ مذہبی نمایاں نکات اور کندہ کاری میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اور پورے خطے میں دیواروں، طاقوں، میناروں اور گنبدوں کی سجاوٹ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ جن میں آگرا کا تاج محل، حلب کی اموی مسجد اور اصفہان کی شاہ مسجد شامل ہیں۔
تاج محل میں بیرونی طرف سفید سنگ مر مر کے پینلز پر قرآنی آیات کندہ ہیں اور یہ کام سترھویں صدی کے خوش نویس امانت خان کا کیا ہوا ہے۔
دیدہ زیب اور تقدس کا حامل تلت خط آج کے دن تک مشہور ہے۔ اس کو ماہرین عربی خطوط میں سب سے زیادہ آرائشی خط قرار دیتے ہیں۔

بہت سی مثالوں میں تلت میں لکھے الفاظ میں نازکیت اور پھولوں کے سلسلے دکھائی دیتے ہیں جس سے اردگرد کا پورا ماحول دلکش ہو جاتا ہے۔
ہم اس کی اہمیت اس سے بھی جان سکتے ہیں کہ ٹورنٹو کے آغا خان عجائب گھر میں موجود ایک کندہ کی ہوئی تختی موجود ہے جس پر حضرت محمد کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا کا نام بڑے اور خوبصورت الفاظ میں لکھا گیا ہے جس کے اردگرد آرائشی سلسلے ہیں۔
1600 میں ایران میں تیار ہونے والا یہ فن پارہ مقبرے کے دروازے  یا پھر ستون کے مرکزی حصے کی آرائش کے لیے بنایا گیا۔

 

شیئر: