Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مودی نے رمضان کی مبارکباد کیوں دی؟

لاک ڈاؤن کے باوجود دکانیں کھولے جانے پر سوشل میڈیا پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے شاید پہلی بار مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دی ہے اور اس کے بعد انہوں نے اتوار کو اپنے خصوصی خطاب ’من کی بات‘ میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔
یہی نہیں مرکزی حکومت نے شاپنگ مالز اور بڑے بازاروں کو چھوڑ کر دیہات اور محلوں کی دکانوں کو اچانک کھولنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔
لیکن موجودہ حکومت نے گذشتہ چھ برسوں میں مسلمانوں کو جس طرح نظر انداز کیا اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف جو خاموشی اختیار کی اس نے مسلمانوں میں حکومت کے لیے اس قدر عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب مودی حکومت کی جانب سے ظاہر کی جانے والی 'نیک نیتی' پر بھی بھروسہ کرنے سے ڈرتے ہیں۔
جمعے کو رات تقریباً سوا آٹھ بجے وزیر اعظم نے ٹویٹ کی کہ ’رمضان مبارک! میں تمام لوگوں کی حفاظت، خیرت اور خوشحالی کے لیے دعاگو ہوں۔ یہ مبارک مہینہ اپنے ساتھ بے پناہ مہربانی، ہم آہنگی اور ہمدردی لائے۔ ہم کووڈ 19 کے خلاف جاری جنگ میں فیصلہ کن فتح حاصل کریں۔‘
اس کے علاوہ انہوں نے اتوار کو اپنے خصوصی پیغام ’من کی بات‘ میں کہا کہ ’رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ گذشتہ سال رمضان میں کسی نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس سال رمضان اس طرح کے شدید بحران میں گزرے گا۔ اب جبکہ پوری دنیا کو اس مسئلے کا سامنا ہے، ہمارے لیے رمضان یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اسے صبر، ہم آہنگی، حساسیت اور دوسروں کی خدمت کی علامت بنا دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اور زیادہ عبادت کرنی چاہیے تاکہ دنیا عید سے پہلے کورونا وائرس سے چھٹکارہ حاصل کر لے تاکہ پہلے کی ہی طرح ہم اس بار بھی عید کی خوشیاں منائیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مقامی گائڈلائنز کی پیروی کریں گے اور کورونا سے لڑنے کے ہمارے عہد کو مضبوط کریں گے۔
انڈیا کی ویب سائٹ جنتا کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں دو بار رمضان کے متعلق مودی کا بیان خلیجی ممالک میں انڈیا میں جاری اسلاموفوبیا کے خلاف بڑھتے ہوئے غصے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں بہت سارے عرب دانشوروں نے انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس کے علاوہ دکانوں کے کھولے جانے پر سوشل میڈیا پر مستقل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ واٹس ایپ پر ایک پیغام گشت کر رہا جس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ آخر یکایک مودی حکومت نے یکم رمضان سے لاک ڈاؤن کے باوجود دکانیں کھولنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
سوشل میڈیا اور خاص طور پر واٹس ایپ پر لمبی لمبی پوسٹس نظر آ رہی ہیں جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ رمضان میں مسلمان بہت زیادہ خریداری کرتے ہیں اور سارے بڑے تاجر ہندو ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ سال بھر کی کمائی رمضان میں کرتے ہیں، اسی لیے یہ دکانیں کھولی گئی ہیں۔
واٹس ایپ پر ایک مسیج میں کہا جا رہا کہ چونکہ رمضان میں مسلمان بہت زیادہ خریداری کرتے ہیں اور بازار میں ساری رونق انہی کی وجہ سے ہوتی ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ بازار سے دور رہیں کہیں ایک ساتھ پکڑ کر ان کا کورونا کا ٹیسٹ نہ کیا جائے اور سامنے آنے والے نتائج کے بعد انہیں ایک بار پھر بدنام نہ کیا جائے جیسا کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر گذشتہ دو دنوں سے تبلیغی جماعت ٹرینڈ کر رہی ہے۔ گذشتہ روز تو 'تبلیعی ہیروز' ٹرینڈ کر رہا تھا جب کہ پیر کو ’تبلیغی جماعت پر فخر ہے' ٹرینڈ کر رہا ہے۔
اس سے قبل تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کی عام فضا نظر آئی جہاں مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری کرنے یا مسلمانوں کے ہاتھ سامان فروخت کرنے یا مسلمان سبزی فروشوں کو ہندو محلوں میں داخل ہونے پر مختلف جگہ روکا بھی گیا۔ 
بہر حال تبلیغی جماعت کے حوالے سے یہ ٹرینڈز اس وقت سامنے آئے ہیں جب کورونا سے متاثرہ تبلیغی جماعت کے پیروکار صحت یاب ہوئے اور انہوں نے کورونا کے علاج اور اس سے لڑنے میں پلازما تھیراپی کے لیے بڑے پیمانے پر خون کے عطیات دینے کی پیشکش کی۔

انڈیا میں سوشل میڈیا پر گذشتہ دو دنوں سے تبلیغی جماعت ٹرینڈ کر رہا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

دہلی کے وزیراعلی کیجریوال کے متعلق مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کی کہ ’اب ان پر یہ بات کھلی کہ وائرس اور علاج مذہب نہیں دیکھتا۔ تو پھر دہلی حکومت ’مرکز کیسز‘ کو علیحدہ طور پر کیوں پیش کر رہی تھی؟‘
اسد اویسی نے لکھا کہ 'انہوں نے مرکز (مرکزی حکومت) کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں تو بہت بہادری دکھائی لیکن شمالی دلی جب جل رہی تھی تو وہ کمزوری کے ساتھ راج گھاٹ پر بیٹھے دعا کر رہے تھے۔ کیا اس کا جواب منگل وار کو ملے گا؟'
خیال رہے کہ فروری میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد دہلی کے وزیراعلی نے کوئی سخت قدم اٹھانے سے گریز کیا تھا۔ ان فسادات میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
اویسی کی جانب سے منگل وار کا ذکر اس بات کی جانب اشارہ کہ اس دن اروند کیجریوال کی پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی تھی اور اس دن کا ہندو مذہب سے بھی ایک تعلق ہے۔
ان سب سے قطع نظر ملک میں کورونا وائرس میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے اور اتوار کو حکومت ہند کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں 1990 نئے کیسز سامنے آئے تھے جو کہ وبا کے شروع ہونے کے بعد سے ایک دن سب سے زیادہ تھا۔

اسد الدین اویسی نے دہلی کے وزیراعلیٰ پر تنقید کی ہے (فوٹو: کیرالہ کیمونڈی)

دی ہندو اخبار میں شائع ایک خبر کے مطابق دارالحکومت دہلی کے مشرقی علاقے پٹپڑگنج کے میکس سپر سپیشلٹی ہسپتال میں 33 ہیلتھ کيئر ورکرز میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے ان میں دو ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ 
اپریل 15 کو ہسپتال نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے تمام ملازمین کی کورونا وائرس کی جانچ کرائے گا۔
ٹائمز آف انڈیا نے وزارت صحت کے تازہ ترین اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا ہے گذشتہ 24 گھنٹوں میں 48 افراد کی ہلاکت کورونا سے ہوئی ہے جبکہ 1396 تازہ کیسز سامنے آئے ہیں اور مجموعی طور پر متاثرین کی تعداد 27 ہزار 892 ہو گئی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد 872 ہے۔

شیئر: