Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرانس کی جدہ سے دوستی کی داستان

’دی عریبیہ بائی دی فرینچ، انتھالوجی آف ٹیکسٹس آن جدہ 1697-1939‘ یہ نام ہے سفارت کار لوئس بلین (جو جدہ میں فرانس کے قونصل جنرل بھی رہ چکے ہیں) کی کتاب کا، جس میں انہوں نے جہاں اپنی قوم کے جدہ کے ساتھ طویل تعلق، اس کی تاریخ اور ارتقا پر بات کی ہے وہیں شہر اور خطے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
 اس کے لیے انہوں نے تقریباً 50 فرانسیسی مصنفین کے، جن کے کام کا عرصہ دو صدیوں کے زائد پر محیط ہے، خطے خصوصاً جدہ کے بارے میں تاثرات کو پیش کیا ہے۔
جن مصنفین کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں انتہائی اعلیٰ پائے کے لکھاری بھی شامل ہیں جیسے وکٹر ہیوگو (دی ہانچ بیک آف نوٹریڈیم) الیگزنڈر ڈماس (دی تھری مسکیٹیرز) اور جولیس ورن (ٹوئنٹی تھاؤزنڈ لیگز انڈر دی سی) شامل ہیں۔ ان کی جدہ فرانس تعلق اور خطے کے بارے میں تحریریں ایسی دلچسپ معلومات منکشف کرتی ہیں جس سے بہت سے سعودی اور فرانسیسی لوگ سخت حیران ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب کا اکثر سفر کرنے والے بلین نے عرب نیوز کو کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں بتایا جو انہیں قونصل جنرل بننے کے بعد معلوم ہوئیں جیسا کہ ان کی تعیناتی جدہ میں فرانس کی قونصلیٹ کی ایک 175ویں سالگرہ کے روز ہوئی۔
’جدہ قونصلیٹ 1839 میں قائم ہوا اور یہ جزیرہ نما عرب میں فرانسیسی سفارت کاری کا پہلا عہدہ تھا۔‘

انہوں نے کہا ’جس طرح اس موقع کو ماضی کے ایک خاص وقت سے ملایا گیا اس سے میری یہاں کی تاریخ کے بارے میں دلچسپی بڑھی۔‘
 ’میرے علم میں آیا کہ اپنی پوسٹس کے بارے میں 175 سالوں تک بہت سے سفارت کاروں نے مضامین لکھے اور چھاپے۔ تب میں نے یہ محسوس کیا کہ درحقیقت دیگر لکھاریوں، صحافیوں، سفرنگاروں نے بھی وہی کیا کیونکہ جدہ نے فرانس کے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔‘
جب انہوں نے ان لوگوں کے کام اور منصوبوں پر تحقیق کی تو ان پر بہت کچھ کھلتا چلا گیا۔
بلین کہتے ہیں: ’سب سے پہلے میں نے سوچا کہ ایک مضمون لکھا جائے جو بعدازاں جدہ کی جانب سے مواد فراہم کیے جانے کے بعد آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت اختیار کر گیا۔‘
’شمالی افریقہ اور لاونت سے دلچسپی کی وجہ سے فرانس کی مشرق  پسندی سے سبھی واقف ہیں لیکن جزیرہ نما عرب کے حوالے سے کوئی نہیں جانتا۔‘
جدہ کے بارے میں لکھا جانے والا مواد سفارتکاروں تک محدود نہیں تھا ان میں سے بیشتر مشرقی تہذیب کو پسند کرنے والے تھے۔

عظیم فرانسیسی لکھاری جیسے وکٹر ہوگو، الیگزنڈر ڈماس، جولیس ویرن (تحقیقاتی صحافت کے بانی) البرٹ لونڈرے (ناول نگار، صحافی) جوزف کیسل اور فلسفی، مصنف پال نیزن نے بھی شہر کے بارے میں لکھا۔
ان مصنفین اور بعض دوسروں کے کام نے انہیں 1839 سے چلے آنے والے جدہ فرانس تعلق کے حوالے سے ایک نیا خیال دیا۔ 
’فرانسیسیوں نے اسے جدہ کے ساتھ ایک گریٹ ڈیل کے طور پر لکھا ہے کیونکہ جہاں پہلی سفارت کاری کی پوسٹ قائم کی گئی۔ بحیرہ احمر میں فرینکو برٹش رقابت کے دور میں ان دونوں میں سے کسی ملک نے  ایسا قدم نہیں اٹھایا جس کا موجودہ سعودی عرب سے کوئی تعلق ہو۔‘ان دنوں انگریز عدن میں تھے اور فرانسیسی جبوتی میں، لیکن درحقیقت وہ اس قابل تھے کہ بحیرہ احمر میں اپنی دشمنی میں کمی لا سکیں۔

’پہلا فرانسیسی جو اس خطے میں دلچسپی رکھتا تھا وہ تھا بونا پارٹ، مصر کو فتح کرنے اور قاہرہ کا محاصرہ کرنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے مکہ کے شریف کو خط لکھا۔ وہ چاہتا تھا کہ برطانیہ کے ساتھ تصادم میں شریف اس کا ساتھ دے کیونکہ وہ انڈیا پہنچا چاہتا تھا جس کے لیے ضروری تھا کہ وہ بحیرہ احمر کے راستے جائے۔‘
اس کو فرانس اور خطے میں سیاسی تعلق کے آغاز کے طور پر دیکھا گیا جو بعدازاں بڑھتے چلے گئے۔‘
’مصر میں بونا پارٹ کے جانشین محمد علی نے بونا پارٹ کے کوچ کے پدنرہ سال بعد حجاز کو فتح کر لیا اور آگے نجد تک۔‘

بلین کہتے ہیں ’اس نے ایسا فرینچ آرمی کی وجہ سے کیا کیونکہ وہ نیپولین سے شکست خورہ فوجیوں کی بھرتی کے حوالے سے ایک عقلی رائے رکھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے پاس ڈاکٹر، ماہرین تعمیرات اور انجینئیر آرمی میں موجود تھے اور وہ سب جدہ پہنچے۔‘
’مصر کی فوج جس نے حجاز کو فتح کیا وہ زیادہ تر فرانس کے افسران پر مشتمل تھی۔ جزیرہ نما عرب میں پہلا ہسپتال بھی ایک فرانسیسی نے بنایا بالکل اسی طرح جیسے پہلی بیرک اور فارمیسی بنائی گئی۔ یہاں تک کہ احمد باچہ کا پہلا عکسری معاون محمد علی کا بھتیجا تھا جو کہ مصری فوج کا ایک نااہل کمانڈر تھا۔
وہ تین سال اس وقت تک جدہ کا ڈی فیکٹو گورنر رہا جب تک انگریز اور عثمانی سلطنتوں نے حجاز سے مصری فوجیں نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا۔
باچہ اسیر کو فتح کرنے میں ناکام ہوا اور مکہ کی طرف پسپائی کر گیا۔
اس کی فوجی کی قیادت ایک فرانسیسی نے کی جو جدہ کا گورنر بنا جو کہ محمد علی کا دارالحکومت تھا۔‘

سنہ 1813 سے 1839 تک جب مصر نے حجاز پر حکومت کی، جدہ کے ساتھ فرانسیسی تعلق اس وقت بھی جاری رہا۔
’یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے بارے میں فرانسیسیوں اور سعودیوں کو بہت کم معلوم ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب جرمن اور انگریزوں کی وجہ سے محفوظ ہوا تھا لیکن حقیقت اور تحریر میں دونوں میں فرانس کے جدہ کے ساتھ سب سے بڑھ کر تعلقات رہے ہیں
بلین نے کہا ’جدہ سعودی عرب کے لیے گیٹ وے ہے اس لیے میری کتاب کا عوان ’دی ڈسکوری آف عریبیہ بائی دی فرینچ‘ رکھا گیا۔ شہر کے راستے فرانسیسیوں نے ایک پورا خطہ دریافت کیا۔ انہوں نے ملک کے اندر گھسنے کی کوشش نہیں کی، برعکس انگریزوں کے، جنہوں نے کئی بار عراق اور شام کے راستے کھوجی بھیجے۔ فرانسیسیوں نے خود کو بحیرہ احمر اور ساحلی پٹی تک محدود رکھا۔

شیئر: