Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بانی مملکت نے جدہ کے لیے پانی کا عظیم منصوبہ کیسے تیار کیا؟

مملکت کے عوام نے ابن سعود کو ایک مسیحا کے طور پر دیکھا (فوٹو: گیٹی امیجز)
پہلی نظر میں سترہ ہزار پانچ سو ریال کی رقم پندرہ بائی بیس سینٹی میٹر کے سرخ ننھے سے بٹوے کے لیے بھاری قیمت تھی جو دسمبر انیس سو اڑتالیس میں 'جدہ شہر کو فراہمی آب' جیسی ناقابل یقین داستان رقم کرنے جا رہا تھا۔ 
درحقیقت اسے سعودی عرب کے ابتدائی ایام میں بنیادی ڈھانچے کی تیاری میں ایک اہم ریکارڈ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
وہ تاریخی بٹوہ رقم کے علاوہ کچھ اور اہم کاغذات پر بھی مشتمل تھا جن میں ہاتھ سے بنے پانچ نقشے بھی شامل تھے اور یہی وہ بنیادی یادگار چیزیں تھیں جن کی بدولت سعودی عرب ایک جدید ریاست میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔
اس حوالے سے صرف ایک مثال موجود ہے جسے 'اے اے سے ڈی آر بی تک' کے طور پر جانا جاتا ہے۔

 

یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ یہ تحفہ ہے انگریز انجینئر ڈیوڈ راس بیلفور سے سعودی عرب میں پیدا ہونے والے احمد اشموی تک کا، جو جدہ واٹر پراجیکٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔
 انیس سو سینتالیس میں ہونے والی افتتاحی تقریب میں اشموی نے سعودی عرب کے بانی ابن سعود کے فرزند ولی عہد سعود بن عبدالعزیز کو برٹش کمپنی جیلیٹلے ہینکی اینڈ کو، کی طرف سے منصوبے کے حوالے سے تفصیلات پیش کیں۔ وہ فرمانروا کی طرف سے منصوبے کے نگران تھے۔
منصوبے کی ڈرائنگز لندن سے تعلق رکھنے والے ڈیلر پیٹر ہیرنگٹن کی طرف سے فروخت کے لیے پیش کی جا رہی ہیں جو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے شائع ہونے والی نایاب کتابوں میں موجود تھیں۔
ان کے ساتھ انتہائی نایاب کتاب ’ہسٹری آف عزیزیہ واٹر سپلائی جدہ اینڈ گلمپس آن دی سورس آف واٹر ان دی کنگڈم آف سعودی عریبیہ‘ کی کاپی بھی ہوتی ہے جو عبدالقدوس الانصاری نے لکھی اور انیس سو بہتّر میں شائع ہوئی تھی۔
پیٹر ہیرنگٹن کی نایاب کتب پر تحقیق کرنے والے رافیل کارنمیک کے مطابق سرخ بٹوے میں موجود دستاویزات کی اصل اہمیت یہ تھی کہ انہوں نے سعودی عرب کے ابتدائی ایام میں ابن سعود کے سامنے عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ حجاز آنے والے زائرین کے لیے معیار زندگی کو بہتر بنائیں گے۔

جدہ کے پانی کا مسئلہ حل کرنا ابن سعود کی ہمیشہ ترجیح رہی (فوٹو: عرب نیوز)

کارنمیک نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’تیل سے قبل نوزائیدہ مملکت حج سے حاصل ہونے والی آمدن پر انحصار کرتی تھی، اس لیے زائرین کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کی بہتری بہت اہمیت کی حامل تھی۔‘
ابن سعود کو انیس ویں صدی کا عثمانی نظام وراثت میں ملا جس میں کنوؤں کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا تھا اور کوئلے پر ابلا ہوا سمندری پانی مختصر کمیونٹی کو قیمتاً دیا جاتا اور وہی استعمال کرتے تھے جو اس سے زیادہ خرچ اٹھا سکتے تھے۔
جدہ ایک بڑی بندرگاہ تھی جس کے ذریعے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں زائرین مکہ کے مقدس شہر میں داخل ہوتے تھے۔
برٹش انڈیا کے انیس سو سینتس کو شائع ہونے والے ریکارڈ کے مطابق پچیس ہزار دو سو اکانوے حج زائرین انیس سو چونتیس میں حجاز پہنچے جو کہ کافی بڑی تعداد تھی۔

1930 کے عشرے میں تیل کی دریافت نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی (فوٹو: عرب نیوز)

ان دنوں سمندری کنڈنسر کے ذریعے فراہم کیے جانے والے پانی کی سپلائی بارشی پانی کے ذخائر کی وجہ سے سست ہو جاتی تھی جبکہ دوسری جانب کنوؤں کے ذریعے دیے جانے والے پانی کی مخصوص مقدار بھی زائرین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہو جاتی تھی۔
کچھ پانی الوزیریہ کے چشمے سے بارہ کلومیٹر تک بہہ کر آتا تھا تاہم انیس سو تینتیس کے موسم خزاں میں ہونے والے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ پائپ بوسیدہ ہو چکے ہیں اور اندر سے بند ہونے والے ہیں اور شہر تک پانی آلودہ حالت میں پہنچتا ہے۔
دہائیوں تک تنزلی کا شکار سلطنت عثمانیہ کے زیرسایہ رہنے اور ہاشمیوں، حجاز اور نجد کے سعودیوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے جدہ کو فراہمی آب بری طرح متاثر ہوتی رہی۔
آخرکار ابن سعود نے انیس سو پچیس میں بادشاہ حسین کی فوجوں کو حجاز کی قلیل مدتی بادشاہت کے بعد شکست دے دی اور نجد کی ریاست کو سعودی عرب میں ضم کر لیا۔

تیل سے قبل سعودی عرب کا حج اور عمرے کی آمدنی پر زیادہ انحصار تھا (فوٹو: اے ایف پی)

یہی وہ لمحات تھے جب جدہ اور بحری راستے سے مکہ اور مدینہ جانے والے ہزاروں زائرین کی قسمت کا ستارہ بلندی کی جانب روانہ ہوا اور بہت کچھ تبدیل ہوتا چلا گیا۔
جیلیٹیز نامی برٹش کمپنی جس نے ابن سعود کے ویژن کو عملی شکل دینے میں مدد دی، کی جانب سے کہا گیا کہ ابن سعود کی حکمرانی کا پہلا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پوری ریاست میں اور جدہ سے مکہ اور مدینہ تک ہر جگہ سکون ہو گیا اور سفر کرنے والے محفوظ ہو گئے۔ قانون مضبوط اور یکساں ہو گیا۔
جارج بلیک جو ہسٹری آف دی فرم کے مصنف تھے اور یہ فرم اٹھارہ سو چوراسی سے بحیرہ احمر کے دونوں اطراف کام کرتی تھی۔
ان کے مطابق مسلمان ابن سعود کا ایک فاتح اور متاثرکن راسخ العقیدہ مذہبی شخصیت کے طور پر احترام کرتے ہیں۔
’دوسری جانب حکمران نے بھی یہ کر دکھایا کہ اپنے وطن کو خوش حال بنانے کے لیے ان کی صلاحیت دیگر تمام دنیا سے بڑھ کر ہے۔'
جیلیٹیز کمپنی اٹھارہ سو اسّی سے حج کے حوالے سے جدہ میں خدمات انجام دیتی چلی آ رہی تھی اور فرمانروا اس سے اچھی طرح واقف تھے۔

جدہ کی بندرگارہ سے ہزاروں زائرین سعودی عرب آتے (فوٹو: وکی میڈیا)

  ٹائم لائن                                           
۱۹۸۴۔ عثمانی حکام نے الوزیریہ کے کنوئیں سے جدہ کو پانی فراہم کرنے کا تین سالہ منصوبہ بنایا، تاہم جلد ہی ٹینکس مالکان کی تخریب کاری کی نذر ہو گیا کیونکہ وہ پانی کی کمی کو زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
۱۹۰۷۔ عثمانیوں نے جدہ کے لیے سمندری پانی صاف کرنے کی مشین کا حکم دیا۔
۱۹۲۵۔ حجاز کو ابن سعود کی مملکت میں ضم کر لیا گیا۔
۱۹۲۷۔ جدہ کی سمندری پانی کی فلٹریشن مشین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور ابن سعود نے نئی درآمد کی۔
۱۹۴۲۔ مملکت میں ہونے والے پہلے سروے میں وادی فاطمہ میں پہاڑوں کے نیچے تازہ پانی کے چشمے دریافت ہوئے۔
۱۹۴۶۔ ابن سعود نے پانی کے ایک اعلیٰ منصوبے کا حکم دیا جو کہ انیس سو سینتالیس میں حج کے وقت تک پورا ہونا تھا۔
۱۹۴۷۔ جدہ کے لیے نئے پانی کی فراہمی کے افتتاح کو ایک بڑی خوشی کا موقع قرار دیا گیا۔

ابن سعود نے 1946 میں جدہ کے لیے پانی کے اعلیٰ منصوبے کا حکم دیا (فوٹو: اے ایف پی)

کمپنی کے متعدد دفاتر اٹھارہ سو اسّی کے وسط سے خرطوم، بحیرہ احمر کے ساتھ جدہ میں، سواکن، پورٹ سودان، مساوا اور ٹوکر میں چل رہے ھے جبکہ جدہ پہنچے والے زائرین کے قافلوں لیے ایک ریسٹ ہاؤس بھی تھا، اسی طرح شپنگ ایجنٹس کے ذریعے سمندری راستے سے آنے والے حاجیوں کی مدد کی جاتی تھی۔
اس نے ابن سعود کے دور کے ابتدائی برسوں میں، خطے کو متحد کرنے اور انیس سو پچیس میں حجاز کے انضمام کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔
انیس سو تینتیس میں تیل کی دولت ملنے سے قبل حکومت کی آمدنی کا بڑا حصہ حج زائرین کی آمد سے حاصل ہوتا تھا۔ یہ ریونیو کا ایک بڑا ذریعہ تھا مگر اکثر کچھ ایسی وجوہات کی وجہ سے متاثر ہو جایا کرتا تھا جو سعودیوں کے کنٹرول سے باہر تھیں۔
جب بھی مشکل وقت پڑتا جیلیٹیز اس سے نکلنے کے لیے ابن سعود کے لیے قرضوں کا بندوبست کرتی۔
اس لیے یہ امر قطعی حیران کن نہیں تھا کہ جب انیس سو چھیالیس میں کمپنی کو انفراسٹرکچر جو زیادہ تر حج سے متعلق تھا، کو ایک بنیادی رول کے لیے منتخب کیا۔

این سعود کے اقدامات کی بدولت ملک مین ہر طرف سکون ہوگیا (فوٹو: وکی پیڈیا)

فرمانروا کا جدہ کو جدید فراہمی آب کا عزم صرف مقدس شہروں میں حج زائرین کو آسانی فراہم کرنے تک محدود نہیں تھا بلکہ جدہ کو ایک الگ شناخت بھی دینا تھی اور یہی وہ اقدامات تھے کہ جن کی وجہ سے آج وہ ایک جدید اور تیزی سے آگے بڑھنے والا شہر ہے۔
اگرچہ مقدس شہر مکہ کے نزدیک ترین واقع بندرگاہ جدہ فضائی سفر سے قبل حج زائرین کے لیے ایک قدرتی گیٹ وے تھا لیکن تازہ پانی کی کمی شہر کے پھیلاؤ اور حج زائرین کی تعداد میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہا۔
یہ دونوں شعبے پوری طرح سے طاقتور مقامی کاروباری گروپوں کی گرفت میں تھے جو شہر بھر میں پانی کے ٹینکوں کا کام کرتے تھے اور بہت زیادہ دام وصول کرتے جبکہ اکثر مضر صحت پانی بھی فراہم کیا جاتا۔
اٹھارہ سو چوراسی میں عثمانی حکام نے پائپ کے ذریعے جدہ کو پانی فراہم کرنے منصوبہ شروع کیا جو الوزیریہ کے کنوئیں سے دیا جانا تھا اور وہ بارہ کلومیٹر دور تھا۔

ابن سعود نے 1925 میں بادشاہ حسین کی فوجوں کو شکست دے دی (فوٹو: گیٹی امیجز)

دو ہزار پندرہ میں شائع ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق 'یہ منصوبہ تین ہزار آدمیوں نے تین سال میں مکمل کیا۔'
اٹھارہ سو اٹھاسی میں اس کی تکمیل پر مائیکل لو نامی مصنف جو اواخر عثمانیہ اور جدید مشرق وسطوی تاریخ کے ماہر تھے، نے لکھا کہ ’جدہ کو ایک نیا سجاوٹی فوارہ، وضو خانہ، پانی کا ڈپو، سپلائی ہونے والے پانی کا ذخیرہ مل گیا جس سے شہر کو پانی کے ناجائز منافع خوروں سے نجات مل گئی۔‘
لیکن صرف دو برسوں میں ہی واٹر ڈپو کو بھرنا اور تقسیم کے ذخیرے کو بھرنا مشکل ہو گیا اور منصوبہ ناکام ہو گیا۔
چشموں کا تیزی سے اترنا کوئی انجینئرنگ کی خرابی نہیں تھی۔ ٹینکس کے مقامی مالکان نے جان بوجھ کر نئے پلانٹ کو ناکام بنانے کے لیے بارش کا پانی روک کر پائپس کو بند کیا۔
عثمانی حکام مہنگے فلٹریشن پلانٹس کے بارے میں پریشانی میں مبتلا ہو گئے تاہم انیس سو سات میں دو کا آرڈر دے دیا گیا ایک جدہ کے لیے اور دوسرا ینبو کے لیے۔

ابن سعود نے ملک میں ترقی اور خوش حالی کی داغ بیل ڈالی (فوٹو: عرب نیوز)

دونوں انیس سو گیارہ تک چلے لیکن جب سعودیوں نے انیس سو پچیس میں ہاشمیوں کی قلیل مدت ریاست حجاز کو فتح کیا تو ان کو جدہ کے پانی کے حوالے سے مسائل ورثے میں ملے۔
صاف کیا ہوا سمندری پانی صرف شہر کے ایک حصے کو مہیا کیا جاتا تھا لیکن وہ بھی زیادہ تر مسائل کا شکار رہا جن میں سب سے بڑا کوئلے کی کمی تھا۔ ایک بار اس وقت جب پہلی عالمی جنگ کے دنوں میں اتحادیوں نے  کوئلے پر پابندی لگائی اور دوسری بار انیس سو چوبیس، پچیس میں حجاز میں لڑائی کے دوران، جس کے نتیجے میں جدہ کنڈنسر کے لیے لکڑی کو جلایا جانے لگا جس سے اس کو نقصان پہنچا اور آخرکار انیس سو ستائیس میں جواب دے گیا۔
انیس سو چھبیس، ستائیس میں ابن سعود نے دو نئی مشینیں درآمد کیں لیکن صاف پانی تب بھی بہت مہنگا اور زیادہ تر سعودیوں کی قوت خرید سے دور ہی رہا۔ سعودی قائدین جدہ کو کنڈنسر اور ٹینکس کے پانی پر انحصار سے چھٹکارا نہ دلا پانے پر بہت پریشان تھے۔

این سعود کے اقدامات کے باعث جدہ کا شمار جدید ترین شہروں میں ہوتا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

ایک امریکی ماہر ارضیات نے انیس سو اکتیس میں ایک سروے کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 'حجاز میں رواں پانی ملنے کی کوئی امید نہیں ہے' تاہم ابن سعود نے پھر بھی ہار نہیں مانی۔
آخرکار انیس سو بیالیس میں ایک امریکی ادارے نے پانی کے حوالے سے مملکت کا ایک منظم سروے کیا اور شہر کے مشرق میں وادی میں چالیس سے ساٹھ کلومیٹر دور پہاڑیوں کے نچلے حصوں میں تازہ پانی کے کچھ سلسلے دریافت کیے۔
سروے کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے کہ پانی کا ذریعہ جدہ کے پانی کے تمام مسائل حل کرنے کے لیے کافی ہے اور ابن سعود نے برٹش فرم جیلیٹیز کو اسے ممکن بنانے پر لگا دیا۔
محقق کارنمیک نے اس منصوبے کے دلچسپ نکات کا ذکر کیا ہے۔
’عبدالعزیز نے ذاتی طور پر انیس سو سینتالیس کے حج کے دوران پانی کو صاف اور محفوظ بنانے کے لیے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالا۔‘

جدہ کے مکمل ہونے والے واٹر سپلائی سسٹم کا نقشہ (فوٹو: سپلائیڈ)

'یہ وقت کے خلاف ایک دوڑ تھی لیکن اس کو جیت لیا گیا۔'
جیلیٹیز نے برٹش سول انجینئرنگ فرم ڈی بالفور اینڈ سنز کی خدمات منصوبہ آگے بڑھانے کے لیے حاصل کیں۔
مقامی ٹھیکیداروں محمد اور عبداللہ بن لادن کو خندقیں کھودنے اور مصری کمپنی کو پائپ بچھانے کا کام دیا گیا۔
ڈیوڈ راس بالفور کو منصوبے کے لیے چنا گیا اور وہ اکیس جنوری انیس سو چھیالیس کو جدہ پہنچے۔
چمڑے کے خصوصی شو کیس میں منصوبہ فروخت کے لیے پیش کیا گیا، ابوشعیب شہر کا قریب ترین اور پہلا کنواں تھا جسے منصوبے میں شامل کیا گیا اور اس کا پانی سب سے پہلے پندرہ نومبر انیس سو سینتالیس کو جدہ پہنچا۔

1948 میں چمڑے کے سرخ بٹوے پر سٹی آف جدہ واٹر سپلائی لکھا ہے (فوٹو: اے این)

تین روز بعد کامیابی کی خوشی منانے کے لیے ولی عہد سعود کی سربراہی میں تقریب منعقد ہوئی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی اور غیرملکی شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب میں قرآن کی تلاوت، تقاریر، شاعری اور فائرنگ کے علاوہ جہازوں کی تعظیمی پرواز بھی شامل تھی۔
مزید چند برسوں میں دیگر کنوؤں کا پانی بھی شامل کر لیا گیا اور پانی کا ہدف دسمبر انیس سو پچاس میں مکمل ہوا۔
جیلیٹیز کے ریکارڈ اور جارج بلیک کے مطابق 'منصوبے کا تاثر انتہائی تیز اور شاندار تھا۔'
مصنف بلیک نے ابن سعود کی پانی کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب کے پندرہ سال بعد لکھا کہ 'ڈرائنگ میں پیش کیے جانے والے چار منصوبوں کے کاغذات میں شاید سب سے دلچسپ اور تاریخی طور پر اہم پلان آف جدہ، انیس سو سینتالیس ہے۔'

1935 میں جدہ کے تاریخی مکان کی تصویر (فوٹو: عالمی سٹاک)

یہ بٹوہ موجودہ اور ماضی کے شہر کے بارے میں تفصیلات پیش کرتا ہے جس میں دیواروں کے اندر واقع عمارتیں اور گلیاں شامل ہیں جو سولہویں صدی کی ہیں۔
جب شہر تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا تو ان دیواروں کو گرایا جاتا رہا اور پانی وادی فاطمہ سے جدہ میں بہتا چلا آیا۔
پانی اور تیل کی تلاش
ضمنی پیداوار کے لیے متجسس ابن سعود کی پانی کے لیے تلاش سے ایک اور قدرتی چیز دریافت ہو گئی جو سعودی عرب کی تقدیر بدلنے والی تھی۔
انیس سو تیس میں ابن سعود کی درخواست پر نیویارک کے صنعت کار چارلس آر کرین جو عرب تھے، نے پانی کے مسئلہ کا جائزہ لینے کے لیے خود جدہ کا دورہ کیا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے چیف جیالوجسٹ اور انجینئر کارل ٹویچل کو بھیجا جو ایسے ہی ایک منصوبے پر یمن میں کام کر رہے تھے۔

حجاز کے پہلے بادشاہ علی بن حسین کی 1935 کی تصویر (فوٹو: گیٹی امیجز)

بدقسمتی سے جو سروے ٹویچل نے اپریل انیس سو اکتیس میں کیا اس میں ان کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے رواں پانی کے کنوؤں کی کوئی امید بندھتی۔
مائیکل لو نامی ماہر اور محقق کے مطابق سعودی مایوس تو تھے لیکن تھے بہادر، اپنی آمدن کے سب سے بڑے حج کو خطرے میں پڑتا دیکھ کر انہوں نے ٹویچل کو اس کا کوئی متبادل ذریعہ آمدن دریافت کرنے کا کہا اور پھر یہ ہوا کہ پانی کی تلاش میں کی جانے والی کوشش نے ایک نئے معجزے کا دروازہ کھول دیا جو تھا تیل۔
ٹویچل کو یقین تھا کہ جزیرہ نما عرب اور اردگرد میں تیل موجود ہو سکتا ہے اور پھر اس کی کہی یہ بات تاریخ بن گئی۔
انیس سو اکتیس میں ابن سعود نے ماہر ارضیات سے الاشا اور عرب خلیج ساحل پر سروے کرنے کا کہا۔ 
ٹویچل کے کاغذات جو اب پرنسٹن یونیورسٹی کے پاس موجود ہیں، انکشاف کرتے ہیں کہ ابن سعود فکرمند تھے کہ حاجیوں میں ہونے والی تیزی سے کمی ان کے ترقی کے منصوبے کو تباہ کر دے گی۔

عزیزیہ واٹر سپلائی جدہ کی تاریخ کے حوالے سے نادر ڈرائنگ (فوٹو: سپلائیڈ)

انیس سو بتیس میں انہوں نے تویچل سے ایسا انویسٹر تلاش کرنے کو کہا جو تیل کی تلاش کے لیے فنڈ دے سکے۔ مئی انیس سو تینتیس میں سعودی عرب نے سٹینڈرڈ آئل کمپنی آف کیلی فورنیا کو رعایت دی جو عریبین امریکن آئل کمپنی (آرامکو) کی طرف پہلا قدم تھا جو آج دنیا کی سب سے بڑی تیل کی فرم ہے۔
بہرحال لو نے جرنل کمپیریٹو سٹیڈیز ان سوسائٹی اندی ہسٹری ان دو ہزار پندرہ میں لکھا ہے کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تیل سعودیوں کے لیے پہلی ترجیح بن گیا، ان کا اب بھی یہی خیال تھا کہ ان کے جزیرہ نما کے استحکام کے لیے پانی سب سے زیادہ اہم ہے۔'

شیئر: