Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا: ڈاکٹرز مریضوں کا پتا لگانے کے لیے ’جاسوس‘ بن گئے

ٹریسرز نئے مریضوں کی کھوج لگاتے ہیں جہیں فوری طور پر الگ کر دیا جاتا ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)
مکمل حفاطتی لباس میں ملبوس دو ڈاکٹر چار مرتبہ گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ دن کا ان کا پہلا ٹاسک ایک ایسی خاتون کا کورونا ٹیسٹ کرنا ہے جو کہ استنبول میں کورونا کے ایک مریض کے ساتھ رابطے میں رہی تھیں۔ 
سفید باڈی سوٹ میں ملبوس آدمیوں کو گھر میں دیکھ کر پریشان خاتون ان کے سوالات کا جواب دیتی ہیں جس کے بعد ان کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ان کو ٹیسٹ کا رزلٹ اگلے دن دیا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی میں ’ٹریسرز‘ (سراغ لگانے والے) کی چھ ہزار ٹیمیں کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو 24 گھنٹے تلاش کرتی ہیں اور ان کی کھوج لگاتی ہیں جن کا کورونا کے کسی مریض کے ساتھ رابطہ رہا ہوتا ہے۔ یہ سارے ٹریسرز ڈاکٹرز اور ہیلتھ پروفیشنلز ہیں۔
یہ ٹریسرز نئے مریضوں کی کھوج لگاتے ہیں جنہیں فوری طور پر الگ کر دیا جاتا ہے اور ان کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے۔  ترک حکومت کا کہنا ہے کہ ’ٹریسنگ‘ کی مشق نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور اموات کو کم کرنے میں مدد دی ہے۔
حکومت کے اعداد شمار پر اعتراض کے باوجود بھی ترکی میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں اس سے ہونے والی اموات نسبتاً کم ہیں۔

ڈاکٹر مصطفےٰ سیور کے مطابق اگر خاتون کا ٹیسٹ مثبت آیا تو وہ ہماری فائلوں میں کنفرم کیس کے طور پر رجسٹرڈ ہوگا (فوٹو:سوشل میڈیا)

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں کورونا کے اب تک ایک لاکھ 33 ہزار 700 کیسز سامنے آئے ہیں اور اب تک تین ہزار 641 افراد اس مرض سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔
ہر ٹریسنگ پراسیس میں اوسطاً 4.5 مریضوں کی شناخت کی جاتی ہے جو کہ کورونا کے کسی مریض کے رابطے میں رہے ہوتے ہیں۔ 
ترکی کے وزیر صحت فخر الدین کوسا نے اپریل کے آخر میں کہا تھا کہ ٹریسرز نے اب تک چار لاکھ 60 ہزار افراد سے رابطے کیے۔
استبول کے فتح ضلع کے پنلک ہیلتھ ایجنسی کے ڈٓئریکٹر ملک نور اسلان کا کہنا ہے کہ مشتبہ مریضوں کی تلاش کے لیے یہ ڈاکٹرز خقیقی معنوں میں جاسوسوں والا کام کرتے ہیں۔
ان کے مطابق جب کورونا کے مریض کی شناخت کی جاتی ہے تو گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران ان کے سفر اور روابط ٹریس کیا جاتا ہے اور ان میں بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے ڈاکٹر مریض کے پاس یا ان کے گھر ایک سوالنامہ لے کر جاتے ہیں۔ آپ کہا گئے؟ کس سے بات ہوئی؟ کس سے ملے؟ کیا وہ اس دوران ماسک ہین رکھا تھا؟ اس طرح کے سوالات کیے جاتے ہیں۔

ٹریسر کا کردار کورونا وائرس کی دوسری لہر کو روکنے میں بھی اہم ہوگا (فوٹو:سوشل میڈیا)

اس کے بعد یہ ڈاکٹر  ممکنہ مریضوں کی ایک لسٹ بناتے ہیں اور انہیں 14 دن کے لیے سیلف آئسولیشن کا کہا جاتا ہے۔۔ اگر کسی شخص میں بیماری کی علامت پائی جاتی ہے یا قرنطینہ کے دوران علامات ظاہر ہوتے ہیں تو ان کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ 
فتح ضلع میں بھی یہی ہوا جہاں ڈاکٹر ایک خاتون کے گھر گئے۔ جس خاتون کے گھر ڈاکٹرز گئے تھے انہوں نے سر درد اور تھکن کی شکایت کی تھی۔۔
ڈاکٹر ز اس گھر سے رخصت ہوتے ہوئے اپنا حفاظتی لباس اور دوسرا سامان کچرے کے ایک بڑے بیگ میں ڈال دیا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر کے پاس ایک باکس ہے جس میں خاتون کے ٹیسٹ سیمپل ہیں جسے دن کے دوران لیبارٹری بھیجا جائے گا۔
ڈٓکٹر مصطفےٰ سیور کے مطابق اگر خاتون کا ٹیسٹ مثبت آیا تو وہ ہماری فائلوں میں کنفرم کیس کے طور پر رجسٹرڈ ہوگا اور اس کے بعد ٹریسنگ کا ایک نیا عمل شروع ہوگا۔
ٹریسر کا کردار کورونا وائرس کی دوسری لہر کو روکنے میں بھی اہم ہوگا کیونکہ ترکی لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے جا ریا ہے جس کے تخت پیر سے شاپنگ سینٹرز اور ہیر ڈریسرز کی دوکانوں کو کھولا جائے گا۔

ان ٹریسرز کا انحصار ان فیملی ڈاکٹرز پر ہوتا ہے جو باقاعدگی سے اپنے مریضوں سے رابطہ کرکے ان کی صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

دیگر ممالک کے برعکس جہاں ٹریسنگ کے عمل نے رازداری کے حوالے سے بحث چھیڑ دی ہے اور اس بات پر تشویش کا اظہار کای جا رہا ہے کہ یہ ڈیٹا کیسے استعمال ہوگا، ترکی نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے اس طریقہ کار کا آغاز بہت شروع میں ہی کردیا تھا۔
اسلان کا کہنا ہے کہ 'ٹریسنگ اب ترکی کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایسی جانچ پڑتال استنبول میں خسرے کی وبا کے دوران بھی کی تھی۔
ان ٹریسرز کا انحصار ان فیملی ڈاکٹرز پر ہوتا ہے جو باقاعدگی سے اپنے مریضوں سے رابطہ کرکے ان کی صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں اور اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ لاک ڈاون میں احتیاطی تدابیر اور اقدامات پر عمل کررہے ہیں۔
اسلان نے بتایا کہ صرف استنبول میں ہی دو سے چار ٹریسرز پر مشتمل  ایک ہزار دو سو ٹیمیں نئے کیسز کا پتا لگا رہی ہیں۔

شیئر: