Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاپنگ مالز میں فنگس کی خبروں میں کتنی صداقت؟

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے شاپنگ مالز کو بھی بند کر دیا گیا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)
کیا واقعی مہینوں سے بند شاپنگ مالز میں فنگس اور بیکٹیریا اس قدر رچ بس چکا ہے کہ وہاں موجود اشیا خراب ہو رہی ہیں اور لوگ بھی گئے تو ان کی صحت کو خطرات لاحق ہوں گے؟
لوگوں کی اس پریشانی میں کتنی صداقت ہے اور کتنا مفروضہ، آئیے جانتے ہیں۔
دو دن قبل سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر وائرل ہوئیں جس میں دکھایا گیا کہ کسی شاپنگ مال کی دکان میں ڈسپلے پر لگے کپڑوں اور جوتوں پر پھپھوندی جم چکی تھی۔ یہ تصاویر پاکستان کے کسی مال کی ہیں یا بیرون ممالک کی، اس حوالے سے متضاد بیانات سامنے آئے مگر لوگوں کی عمومی رائے یہی تھی کہ کم و بیش تمام شاپنگ مالز کا یہی حال ہو چکا ہے۔
ان تصاویر کو پوسٹ کرنے والوں نے ساتھ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر حکومت کی جانب سے مالز کھولنے کے احکامات جاری کر بھی دیے جائیں پھر بھی لوگوں کو کچھ ہفتے تک وہاں جانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ فنگس اور بیکٹیریا کئی دنوں تک ہوا میں رہتا ہے جس کی وجہ صحت کو نقصان کا خدشہ ہوگا۔

شاپنگ مالز ہیں، تاریخی عمارات نہیں

سوشل میڈیا پر ہی بہت سے صارفین نے ان باتوں کی نفی کی اور انہیں افواہ قرار دیا، کچھ نے واضح کیا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ انڈونیشیا کے کسی مال کی تصاویر ہیں اور وہاں چونکہ ہوا میں نمی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے ایسا ہوا۔
پر کیا مالز واقعی دو مہینے سے مکمل بند ہیں اور وہاں کوئی آ جا نہیں رہا؟ اس سوال کے جواب میں کراچی میں واقع مالز کی چین ڈولمین کی ترجمان پلوشہ سکندر نے اردو نیوز کو بتایا کہ گروسری سٹورز ہونے کی وجہ سے مالز مکمل بند نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ بھی خریداری کے لیے آرہے ہیں جس کی وجہ سے مالز کھلے ہوئے ہیں اور صفائی کا مکمل اہتمام کیا جا رہا ہے۔
پلوشہ نے بتایا کہ مالز کی صفائی ستھرائی اور وینٹیلیشن بلکل اسی طرح کی جا رہی ہے جیسی عام دنوں میں ہوتی تھی، لہٰذا بیکٹیریا اور فنگس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب کہ اس بات کا بھی پلان کیا جا رہا ہے کہ مالز کھولنے سے پہلے فیومیگیشن اور سینیٹائزیشن کی جائے گی۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد بازار کھل گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ میں بند ہوئے مالز کے دکانداروں نے اپنا سامان شیلف سے ہٹا کر محفوظ کرلیا تھا۔
فیومیگیشن کمپنی پوائنٹرز کے ڈائریکٹر محمد ارشاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ پھپھوندی اس صورت میں لگتی ہے جب ہوا میں بے تحاشا نمی ہو یا پانی کی وجہ سے سطح میں گیلا پن ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی آب و ہوا ایسی ہے کہ اگر مالز کے ایئر کنڈیشن مکمل بند رہیں اور ہوا کا گزر نہ ہو تو فنگس ہونے کا خطرہ موجود ہے، تاہم اگر دن میں چند گھنٹوں کے لیے بھی وینٹیلیشن سسٹم چلا دیا جائے تو پھر فنگس اور بیکٹیریا کا خطرہ نہایت کم ہوجاتا ہے۔

بند دکانوں میں بیگس اور جوتوں کو لگے فنگس کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں (فوٹو: فیس بک)

ارشاد نے بتایا کہ کافی عرصے تک بند رہنے والی جگہوں میں ہائیڈرو کلورین کا سپرے کیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کہیں بیکٹیریا اور فنگس ہو بھی جائے تو فیومیگیشن کے 12 سے 24 گھنٹوں میں وہ جگہ استعمال کے لیے موزوں ہو جاتی ہے، اس بات کی کوئی منطقی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ مالز کھلنے کے بعد بھی لوگ ہفتوں یا مہینوں وہاں نہ جائیں۔
سوشل میڈیا صارف کرن منصور کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس نے ہر طرح سے عالمی معیشت تباہ کردی یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ جبکہ حنین صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستانی آب و ہوا میں ایسا نہیں ہوگا، البتہ صارف طلحہ رفیق کا کہنا تھا کہ یہ شاپنگ مالز ہیں کوئی ہمارے اجداد کی تاریخی حویلیاں نہیں جو سالوں بند رہنے کی وجہ سے کھنڈر بن جائیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: