Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی ویرانی اور سحری میں پراٹھوں کی تلاش

کراچی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں رات نہیں ہوتی (فوٹو: اردو نیوز)
کراچی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں رات نہیں ہوتی اور رمضان میں تو یہ شہر بالکل نہیں سوتا۔ شاپنگ، نائٹ کرکٹ اور فوڈ سٹریٹ میں سحری، یہ وہ مشاغل ہیں جو تراویح کے بعد سے فجر تک لوگوں کو مصروف رکھتے تھے، مگر رواں برس رمضان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر قائد کی سحر اور افطار کی رونقیں مانند پڑ گئی ہیں۔
وہ فوڈ سٹریٹس اور مارکیٹیں جہاں رات گئے تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی، سحری کھانے کے لیے گھنٹوں پہلے جا کر انتظار کرنا پڑتا تھا، اس سال ویران سنسان پڑی ہیں۔
رمضان کے شروع کے دن تو لاک ڈاؤن کی سختی کی نظر ہوگئے مگر جب پیر سے لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہوئی تو شہر کا شہر مارکیٹوں میں اُمڈ آیا۔ اس وقت کراچی کا معاملہ عجیب چل رہا ہے، دن میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے اس شہر میں کورونا وائرس کا خدشہ ہے ہی نہیں، اور رات میں شہر کا چکر لگائیں تو گمان ہوتا ہے کہ نہ اس شہر میں رمضان ہے نہ عید کی آمد قریب ہے۔
کسی منچلے نے خوب لکھا کہ کراچی کہ مارکیٹوں میں رش کو دیکھ کر امریکہ یورپ کو گمان ہو رہا ہوگا کہ پاکستانیوں نے کورونا کی ویکسین دریافت کر لی ہے۔ اسی سب کے درمیان ہم نے سوچا کہ جب دن کے اوقات میں کورونا سے معاملات طے پا گئے ہیں تو سحری کے وقت بھی کچھ حل نکال ہی لیا ہوگا۔ کچھ نہ ہوا تو پٹھان کے پراٹھوں کا 'ٹیک اوے' تو مل ہی جائے گا۔ گھر والوں کو تحریک دی، کہا گاڑی میں ہی بیٹھے رہیے گا پر چلیں تو سہی، دیکھ کے تو آتے ہیں شہر کا رنگ۔

گذشتہ رمضان کے دوران کراچی میں غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا (فوٹو: اے ایف پی)

گھر والے بھی ہفتوں سے لاک ڈاؤن کا شکار تھے، مان گئے اور ساتھ ہو لیے۔ باہر نکلنے پر شہر کا جو منظر دیکھنے کو ملا وہ برسوں پہلے تب ہی دیکھنے کو ملتا تھا جب شہر میں آئے روز ہنگامے ہوتے تھے اور کراچی بند ہو جاتا تھا۔ کچھ دیر کو تو ماضی کے جھروکوں میں بھی چلا گیا، جب گھر والے جھنجوڑ کر حقیقت میں لائے اور اس سحری کی جانب توجہ دلوائی کہ جس کا ان سے وعدہ کیا تھا۔
حسین آباد فوڈ سٹریٹ کی تاریکیوں سے مایوس ہو کر فائیو سٹار چورنگی کا رخ کیا، دل کو تسلی دی کہ کراچی والے کافی دلدار لوگ ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے کہاں ڈریں گے، ضرور کوئی نہ کوئی انتظام ہو جائے گا۔ پر جب لنڈی کوتل چورنگی سے فائیو سٹار تک روڈ کے دونوں جانب قائم ریستوران اور ہوٹلوں میں سے ایک بھی کھلا نہ ملا تو کچھ تو دل بیٹھنے لگا ساتھ ہی گھر والوں کو جو تحریک دلائی تھی اس کی پشیمانی الگ۔

کراچی میں تراویح کے بعد سحری تک نائٹ کرکٹ جاری رہتی (فوٹو: عرب نیوز)

جب یہاں مایوسی ہوئی تو گاڑی پشون اکثریتی علاقے سہراب گوٹھ کی طرف موڑ دی۔ پر وہاں جا کے یوں لگا کہ جیسے اس جگہ کے مکین نقل مکانی کر چکے ہیں، جہاں ہمیشہ زندگی کو دوڑتے دیکھا تھا وہاں اب اس کی رمق بھی باقی نہیں لگ رہی تھی۔
ویسے یہ شہر بھی ثقافتوں کی رنگین آماجگاہ ہے، یہاں لنڈی کوتل میں مہاجر بستے ہیں، جبکہ بنارس میں پٹھان آباد ہیں۔
جب الآصف میں بھی مایوسی ہوئی تو گھر والوں نے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب بھی وقت ہے، گھر کی راہ لو۔ ہم نے کہا کہ گلی محلوں سے دیکھتے ہیں، پراٹھے تو مل ہی جائیں گے، بھوک بھی مٹ جائے گی اور جھینپ بھی۔

شہر کا موجودہ منظر برسوں پہلے صرف ہنگاموں کے دوران نظر آتا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

پر جب گلی محلوں میں گاڑی گھما کر بھی پراٹھوں کی تلاش کامیاب نہ ہوئی تو ایک لمحے میں احساس ہوا کہ زندگی میں صرف بڑوں کا ہی نہیں، حکومت کا کہا بھی ماننا چاہیے، اور گھر میں رہنا چاہیے۔
وہ تو بھلا ہو کہ سحری میں وقت سے کافی پہلے گھر سے نکلے تھے اور اس قدر مایوسی سمیٹنے کے بعد بھی یہ امید اور وقت باقی تھا کہ گھر جا کر سحری کر لی جائے۔ سو بُدھو کے مصداق ہم بھی لوٹ کے گھر کو آئے اور والدہ کے ہاتھ کے پراٹھوں سے عیاشی اُڑائی اور توبہ کی جب تک کورونا کا خطرہ ہے اور حکومت کی طرف سے پابندی ہے، ہم ایسے کسی ایڈونچر سے باز رہیں گے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: