Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس اہلکار طبی عملے کے مقابلے میں زیادہ متاثر

پاکستان میں لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی اور اب چار روز تک دکانیں اور بازار کھلے رہیں گے تاہم روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے مریضوں کی تعداد میں کمی دکھائی نہہں دے رہی ہے۔
کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے دو سرکاری محکمے سب سے زیادہ متحرک اور میدان میں ہیں۔ ان میں سے ایک محکمہ صحت کا عملہ ہے جو براہ راست مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہے، جبکہ دوسرا پولیس کا محکمہ ہے جو متاثرین کی تعداد کم سے کم رکھنے میں حکومتی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے فعال ہے۔ 
اردو نیوز نے پاکستان بھر سے ان دونوں محکموں کے ان اہلکاروں کے اعداد و شمار اکھٹے کیے ہیں جو براہ راست کورونا کے مریضوں کے لیے دن رات ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پولیس اہلکار وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جن کی تعداد کسی بھی دوسرے سرکاری محکمے سے زیادہ ہے چاہے وہ محکمہ صحت کا عملہ ہی کیوں نہ ہو۔ 
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشن سہیل سکھیرا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں اب تک 269 پولیس اہلکار کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ان تمام پولیس اہلکاروں کے نمونے لیے گئے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے کورونا کے مریضوں کے قریب گئے یا اس عمارت کے باہر تعینات رہے جہاں ایسے مریضوں کو رکھا گیا ہے۔
’تقریباً ساڑھے چار ہزار سے زائد نمونے لیبارٹریز کو بھیجے جا چکے ہیں اور اس وقت ان میں سے دو سو گیارہ کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ باقیوں کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔‘

اسلام آباد میں کورونا کے دوران فرائض نبھانے پر پولیس کو سلام پیش کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ یہ اہلکار وہ ہیں جن کی ڈیوٹی ہی کورونا کے لیے مخصوص تھی۔ زیادہ تر اہلکار قرنطینہ مراکز کے باہر، ہسپتالوں اور کورونا سے متاثرہ سیل کیے گئے علاقوں میں تعینات تھے۔
دوسری جانب محکہ صحت پنجاب کی جانب سے طبی عملے سے متعلق جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 180 طبی عملے کے افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں ڈاکٹرز اور نرسنگ کا عملہ بھی شامل ہے۔ 
آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے صوبے یعنی سندھ میں پولیس کے ترجمان کے مطابق اب تک 151 کے قریب افسران اور جوان کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، گذشتہ تین روز کے دوران پولیس اہلکاروں میں 36 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
زیرعلاج افسران اور جوانوں کی تعداد 118 ہے، جبکہ 29 افسران اور جوان صحتیاب ہوکر گھر جا چکے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق صوبے بھر میں اس وائرس کا شکار ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 90 ہے جبکہ 18 سے زائد پیرا میڈیکل سٹاف میں وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔

متاثر ہونے والے پولیس اہلکار میں زیادہ تر قرنطینہ سینٹر یا ہسپتالوں کے باہر ڈیوٹی پر فائز تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے طبی عملے کی شرح کل تعداد کا 2.5 فیصد ہے جو کہ مغربی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
تاہم بلوچستان میں صورت حال قدرے مختلف ہے۔ بلوچستان کے محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 143 ہیلتھ کیئر پروائیڈرز کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے ہیں جبکہ صوبے میں متاثرہ پولیس اہلکاروں کی تعداد 45 ہے، تاہم کسی اہلکار کی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔ متاثرہ اہلکاروں میں دو کا تعلق پشین اور سبی سے ہے جبکہ دیگر کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔
ڈی آئی جی آپریشن پنجاب سہیل سکھیرا کے مطابق پولیس اہلکاروں کے متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قرنطینہ مراکز کے باہر بھی پولیس اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہیں اور ہسپتالوں کے باہر بھی۔ اسی طرح جن جن علاقوں میں زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں ان کو سیل کرنے کے بعد بھی علاقے میں پولیس کو ہی تعینات کیا جاتا ہے۔ 

کورونا کے باعث سیل ہونے والے علاقے میں بھی پولیس تعینات کی جاتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پولیس والوں میں زیادہ کیسز سامنے آنے کی وجہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا ہو سکتا ہے؟ ڈی آئی جی سہیل سکھیرا نے کہا کہ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سب کے لیے نئی تھی۔
’ہم نے وہ تمام احتیاتی تدابیر اختیار کیں جو ممکن تھیں، ایسے پولیس اہلکار بھو کورونا کا شکار ہوئے جو مکمل حفاظتی سامان سے لیس تھے۔ اور ایسے اہلکار بھی شکار ہوئے جو ہلاک ہونے والوں کی تدفین کرتے رہے۔ حالانکہ ڈبلیو ایچ او کی گائیڈ لائنز کے مطابق تمام طریقہ کار اختیار کیا گیا۔‘ 
سندھ کے محکمہ پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس میں زیادہ کیسز کے سامنے آنے کی وجہ زیادہ اہلکاروں کا کورونا متعلق ڈیوٹی پر معمور ہونا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے نئی صورت حال کا سامنا ہو رہا ہے ویسے ہی احتیاطی تدابیر میں مزید بہتری لائی جا رہی ہے۔ کم بیش بلوچستان کے محکمہ پولیس کا بھی یہی کہنا ہے۔

شیئر: