Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلاق سے قبل اصلاحِ احوال کی کوششیں

اصلاح احوال کی کوششوں کے بعد بھی طلاق کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ہمدرد اور خیر خواہ رشتہ داروں کے ذریعہ باہم مصالحت کی کوششوں کا حکم دیا گیا
مولانا محمد عابد ندوی ۔ جدہ
- - - - - - - - -  - - - -
آج معاشرتی برائیوں میں ایک اہم برائی طلاق کی کثرت اور اس کا بے جا استعمال ہے ۔یہ ایسی خرابی ہے جس سے میاں بیوی ہی نہیں بلکہ خاندان اور معاشرہ کے دیگر افراد بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شریعت نے ناگزیر حالات میں ہی میاں بیوی کے درمیان جدائی کے لئے طلاق کو مشروع کیا ہے جبکہ ان دونوں کے درمیان خوشگوار نباہ کے امکانات باقی نہ رہیں۔
یہ حق عورتوں کے بجائے ، مردوں کو ( شوہروں کو ) اسی لئے دیاگیا تاکہ اس کا استعمال جذباتیت میں ، غصہ سے مغلوب ہوکر اور انجام کی پروا کئے بغیر نہ ہو بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اورمجبوراً ہی یہ قدم اُٹھا یا جائے۔ طلاق کی وجہ سے معاشرہ میں جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے ، اسی کے پیش نظر شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان معمولی اختلافات اور ناچاقی کو بڑھا کر جدائی ڈال دے ، نااتفاقی اور اختلاف کی صورت میں غصہ کا پیدا ہونا فطری ہے ، آدمی جب غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو اس وقت شیطان کا زور بھی اس پر زیادہ چلتا ہے ، اسی لئے ایک حدیث میں طاقتور شخص اور پہلوان اس کو کہا گیا جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے اورنفس کو بے قابو نہ ہونے دے ۔
میاں بیوی کے درمیان تلخ کلامی ہو تو اکثر یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ شوہر نے غصہ میں طلاق دے دی یا بیوی نے طلاق کا مطالبہ کیا اور شوہر نے جھٹ سے طلاق دے دی حالانکہ طلاق کوئی ہنسی مذاق نہیں کہ دل میں خیال گزرا اور فوراً زبان سے طلاق کا تیر چلا دیا۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ بلا وجہ طلاق دینا ناجائز اور اﷲ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ نیز باعث گناہ ہے ۔
طلاق ، شوہر کو دیا گیا ایسا حق ہر گز نہیں جسے وہ آزادانہ طورپر جب چاہے اور جس طرح چاہے استعمال کرے بلکہ شریعت کی طرف سے اس کے کچھ آداب وشرائط اور حدود و قیود بھی ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ طلاق کی کثرت اور اس کا بے جا استعمال نہ ہونے لگے لیکن جہالت و نادانی اس قدر عام ہے کہ اکثر شوہر اپنے اس حق کے بارے میں کچھ آگہی نہیں رکھتے لہٰذا بغیر سوچے سمجھے فوراً طلاق کا انتہائی قدم اُٹھالیتے ہیں ، جسے درحقیقت ’’ آخری قدم ‘‘ ہونا چاہئے تھا ، اﷲ تعالیٰ نے کلام پاک میں ایک جگہ طلاق و خلع کے بعض احکام بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: یہ اﷲ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، پس تم اس سے آگے نہ بڑھو اور جو کوئی اﷲ کی حدوں سے تجاوز کرے تو یہی لوگ درحقیقت ظالم ہیں۔ ( البقرہ229 )
اسی طرح مسائل طلاق ہی کے ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اﷲ کی آیات کو ہنسی مذاق نہ بناؤ۔ ( البقرہ231 ) ایک شخص نے طلاق کا حق غلط استعمال کرتے ہوئے بیوی کو 3 طلاقیں دے دیں، رسول اﷲ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ کیا اﷲ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے حالانکہ ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں ، یہاں تک کہ ایک شخص مجلس سے اُٹھا اور کہا یا رسول اﷲکیا میں اسے قتل کردوں ؟ ( نسائی ) ان آیات و احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق کا معاملہ کتنا سنگین ہے ؟ اور اﷲ و رسول کے نزدیک کس درجہ ناپسندیدہ ؟ طلاق کوئی ہنسی کھیل نہیں جب شدید ضرورت اور مجبوری ہوتو سنجیدگی کے ساتھ اور غور وفکر کے بعد ہی یہ قدم اُٹھانا چاہئے ، اس معاملہ میں شوہر ہر طرح سے آزاد بھی نہیں بلکہ اسے یہ حکم دیا گیا کہ وہ معمولی اختلافات پر یا بیوی کی طرف سے نافرمانی اور حکم عدولی پر فوری طلاق دینے کے بجائے بیوی کی اصلاح کی کوشش کرے ، وعظ و نصیحت کرے ، افہام و تفہیم اورسمجھانے بجھانے سے کام نہ چلے تو گھر میں رہتے ہوئے علیحدگی اختیار کرلے ، یعنی کچھ عرصہ کے لئے بستر الگ کرلے ، ضرورت پڑے تو ہلکی مار بھی مارسکتا ہے ، اس ضمن میں اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان ملاحظہ کیجئے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جن عورتوں ( بیویوں ) کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو ( یعنی بیویوں کی بد مزاجی و نافرمانی کے سبب تمہیں تکلیف پہنچے یا اس کا خطرہ ہو ) تو انھیں نصیحت کرو ( زبانی سمجھاؤ ) اور انھیں بستروں پر الگ چھوڑ دو ، ( یعنی گھر میں رہتے ہوئے ان سے بستر الگ کرلو ) اور (اس سے بھی ان کی اصلاح نہ ہو تو ) انھیں مارو ، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری اختیار کرلیں تو ان پر ( ان کے خلاف ) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، ( طلاق مت دو ) بے شک اﷲ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔ ( النساء 34 ) اس آیت میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بتدریج اصلاح احوال کے3 درجے بیان کئے گئے : زبانی و عظ و نصیحت ، عورت میں زیادہ کجی نہ ہو اور وہ سمجھ دار ہوتو زبانی افہام و تفہیم ہی سے کام چل جائے گا ، دل کی گہرائیوں سے ، محبت و شفقت کے ساتھ سنجیدہ اور خوشگوار ماحول میں شوہر بیوی کو نصیحت کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی نصیحت اثر نہ کرے ۔ اگر کسی بیوی کا مزاج ایسا ہوکہ زبانی نصیحت سے کام نہ چلے تو دوسرے درجہ میں یہ رہنمائی کی گئی کہ شوہر گھر میں رہتے ہوئے اور بیوی کو گھر میں رکھتے ہوئے اس سے تعلق ترک کردے ، یہ ایسی نفسیاتی سزا ہے کہ زبانی وعظ و نصیحت سے زیادہ اس میں تاثیر ہے ، عورت میں اگر شرافت و سمجھ داری ہے اور وہ شوہر کے ساتھ نباہ کرنا چاہتی ہے تو اس درجہ میں ضرور وہ اپنی اصلاح کرلے گی ۔ اگر اس سے بھی کسی کو اصلاح نہ ہو تو تیسرے درجہ میں ہلکی مار مارنے کی اجازت دی گئی کیونکہ بعض طبیعتیں یہی زبان سمجھنے کی عادی ہوتی ہیں لیکن احادیث میں یہ صراحت اور شوہروں کو یہ سخت تنبیہ ہے کہ چہرہ پر نہ ماریں اور سخت مار نہ ماریں ، آج کل صورت حال یہ ہوتی ہے کہ بعض شوہر بیویوں کی معمولی نافرمانی پر بھی اگر فوری طلاق نہ بھی دیں تو یا تو گھر سے نکال دیتے اور میکے بھیج دیتے ہیں ، یا سخت مار پیٹ سے کام لیتے ہیں جبکہ یہ ظلم وزیادتی اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ، اس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھ جاتا ہے ، اصلاح کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ شریعت کے بتائے ہوئے ان تینوں طریقوں سے اگر بیوی کی اصلاح نہ ہو اور وہ شوہر کے ساتھ نافرمانی و حکم عدولی کا رویہ ترک نہ کرے تو اس صورت میں بھی طلاق کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ شوہر اور بیوی دونوں طرف سے ہمدرد اور خیر خواہ رشتہ داروں کے ذریعہ باہم مصالحت کی کوششوں کا حکم دیا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی اَن بن کا خوف ہو ( اور باہم شدید اختلاف رکھتے ہوں ) تو ایک منصف مرد والو ں میں سے اور ایک منصف عورت والوں میں سے مقرر کرو ، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اﷲ دونوں (میاں بیوی ) میں موافقت پیدا فرمادے گا ، بے شک اﷲ علم والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ ( النساء 35 )
اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر فریقین کی جانب سے مقرر کردہ حکمین ( ثالث اور منصف ) مخلص ہوں اور وہ واقعتا زوجین کے درمیان صلح صفائی کرانا چاہتے ہوں تو اﷲ ضرور ان کے درمیان موافقت اور اتحاد و اتفاق کی کوئی راہ نکال دے گا ۔ طلاق جب ناگزیر ہوجائے اور اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر کار گر نہ ہو ، تب طلاق کا بہتر طریقہ یہ بتایا گیا کہ شوہر پاکی کی حالت میں صحبت و تعلق قائم کرنے سے پہلے ( یعنی ایام ناپاکی گزر کر عورت کے پاک ہونے کے بعد ازدواجی تعلق سے پہلے ) ایک طلاق دیدے ، ایسی حالت میں فطری رغبت کے باوجود طلاق کا اقدام اس بات کی گویا علامت ہے کہ شوہر مجبوراً ہی طلاق دے رہا ہے ، پھر ایسی طلاق (طلاق رجعی) میں عدت گزرنے سے پہلے پہلے شوہر نکاح کی تجدید کئے بغیر ہی طلاق سے رجوع کرسکتا ہے ، اس طرح عدت میں میاں بیوی کو مزید غور و فکر کا موقع ملتا ہے ، بیوی کا رویہ بدل سکتا ہے ، اسے طلاق کا سبب بننے والے اپنے سابقہ طرز عمل پر ندامت ہوسکتی ہے اور وہ رشتہ بحال کرنے کی خواہشمند ہوسکتی ہے یا شوہر خود ہی طلاق کے برے انجام پر غور کرکے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتا اور طلاق سے رُجوع کرسکتا ہے ۔اس طرح بکھرتا اور ٹوٹتا ہوا گھرانہ از سر نو بحال ہوسکتا ہے ۔ عورت کے مقابلے مرد میں تحمل اوربردباری بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ عورت فطرۃً کمزور پیدا کی گئی ہے ، رسول اﷲ ا کا ارشاد گرامی ہے: عورت ( ٹیڑھی ) پسلی سے پیدا کی گئی ہے ، جسے تم ہرگز سیدھا نہیں کرسکتے ، اگر تم اس سے فائدہ اٹھاتے رہو ، ( یعنی خوش اُسلوبی کے ساتھ زندگی بسر کرو ) تو یہ اس کی کجی کے باوجود ممکن ہے لیکن اگر تم اسے سیدھا کرنے لگوگے تو توڑ دوگے اور اس کا توڑنا طلاق دینا ہے ۔ ( متفق علیہ ) غور کیجئے کہ میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے نیز معاشرہ کو طلاق جیسی وبا اور اس کے نقصانات سے بچانے کے لئے کیسے عمدہ اور حکیمانہ تدابیر کی رہنمائی کی گئی ، اگر اس پر عمل ہو تو کیا معاشرہ میں طلاق کی کثرت ہوگی ؟ اور بلا ضرورت طلاق کا امکان باقی رہے گا ؟۔

شیئر: