پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے نگران ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں ضبط شدہ گاڑیوں کو غیر قانونی طور پر ریگولرائز کرنے والے ایک بڑے نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے جس میں متعدد افسران اور دیگر افراد ملوث پائے گئے ہیں۔
اس نیٹ ورک میں ایف بی آر کے اعلیٰ افسران، موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے اہلکار اور نجی کار ڈیلرز شامل ہیں جو گاڑیوں کے مالکان کی جعلی شناختی دستاویزات بنا کر انہیں ایف بی آر کے آن لائن نیلامی ماڈیول میں اپ لوڈ کرتے تھے اور پھر ان گاڑیوں کو ریگولرائز کروا لیتے تھے۔
ایف بی آر نے تحقیقات کے لیے ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی مدد سے بڑے مجرمانہ نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
ایف آئی اے کی کرنسی سمگلروں کے خلاف کارروائی، پانچ افراد گرفتارNode ID: 892729
اس نیٹ ورک نے جعلی یوزر آئی ڈیز بنا کر آکشن ماڈیول میں ایسی گاڑیوں کی تفصیلات اپ لوڈ کیں جو اصل میں نیلام نہیں ہوئیں بلکہ سمگل شدہ یا غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی تھیں۔ موٹر رجسٹریشن اتھارٹی انہیں عام نیلام شدہ گاڑی سمجھ کر رجسٹریشن نمبر اور قانونی کاغذات جاری کر دیتی۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ جولائی 2025 میں ایف بی آر کو معلوم ہوا کہ آکشن ماڈیول کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ 103 گاڑیاں جعلی یوزر آئی ڈیز کے ذریعے سسٹم میں اپ لوڈ کی گئیں جن میں سے 43 کو قانون کی آڑ میں رجسٹر کر دیا گیا۔
ایف بی آر نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے ایف آئی اے کے اشتراک سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ اور اب تک اس گینگ کے خلاف سات ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں جبکہ 13 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
یہ معاملہ سب سے پہلے جولائی 2025 میں اس وقت سامنے آیا جب ایف بی آر کے اندرونی آڈٹ اور شکایات کے بعد آکشن ماڈیول کے غلط استعمال کی ابتدائی رپورٹس میڈیا میں آئیں۔
اس دوران ایف بی آر کے اندر سے خبریں سامنے آئیں کہ نیلام شدہ گاڑیوں کے ڈیٹا میں ہیر پھیر ہو رہی ہے اور جعلی یوزر آئی ڈیز کے ذریعے گاڑیوں کی تفصیلات اپ لوڈ کی جا رہی ہیں۔
اب ایف بی آر نے اس سارے معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے جاری اعلامیے میں بتایا ہے کہ ان کی تحقیقات کے مطابق ایک بڑے مجرمانہ نیٹ ورک میں موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے افسران، ایف بی آر کے کسٹمز افسران اور کار ڈیلرز ملوث تھے
ایف بی آر نے 9 جولائی کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جس میں ایف آئی اے، کسٹمز اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے افسران شامل تھے۔ جے آئی ٹی کو کسٹمز کے ڈیجیٹل سسٹم میں کی گئی ہیرا پھیری کے سکینڈل کی تحقیقات کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی۔
28 اگست کو ایف آئی اے نے ان افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کی جن کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی تھی۔ ایف بی آر نے واقعے میں ملوث پائے جانے والے اپنے سینیئر افسران کو بھی گرفتار کروا دیا۔
کسٹمز انفورسمنٹ اب تک اس بڑے سکینڈل سے متعلق سات ایف آئی آر درج کر کے مجموعی طور پر 13 افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ وہ ادارے کے اندر موجود مجرمانہ عناصر کی نشاندہی کر کے قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔
اردو نیوز نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق سے بات کی ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ سمگل شدہ گاڑیوں کی نیلامی کا درست طریقہ کار کیا ہونا چاہیے اور ایف بی آر میں اس قسم کے سکینڈل سامنے آنے کا مطلب کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر ایک ایسا ادارہ ہے جس میں کرپشن کے کئی کیسز سامنے آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے سمگل شدہ گاڑیوں کے غلط استعمال کے حوالے سے کہا کہ ایف بی آر میں ایسی گاڑیاں یا تو ذاتی استعمال میں لائی جاتی ہیں، گھروں میں استعمال ہوتی ہیں یا کم فیس دے کر انہیں ریگولرائز کروا لیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پریکٹس ایف بی آر میں بہت عام ہے اور اس میں ادارے کے اپنے افسران اور دیگر متعلقہ افراد کو ساتھ ملا کر یہ کام کیا جاتا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسٹمز کے افسران نہ صرف ایسی گاڑیاں اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنے ادارے کو بھی دیتے ہیں، اور بعض اوقات وزرا تک بھی یہ گاڑیاں پہنچا دی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے ایف بی آر کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تجویز دی کہ ضبط شدہ گاڑیوں کو فوری طور پر ایک آزاد (انڈیپنڈنٹ) کمپنی کے حوالے کیا جائے اور انہی کے ذریعے نیلامی کرائی جائے، نہ کہ ایف بی آر یا کسٹمز حکام کے ذریعے۔
ان کے مطابق ایسی کمپنیوں کو شفاف نظام کے تحت ٹینڈر کے ذریعے منتخب کیا جانا چاہیے اور ایف بی آر و کسٹمز کو خود اس معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح سمگل شدہ گاڑیوں کو ضبط کر کے ان کی نیلامی یا قانونی استعمال ممکن بنایا جا سکتا ہے۔