Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کورونا کے ساتھ لمبے عرصے تک رہنا ہوگا؟

ڈاکٹر عابد کے مطابق کسی بھی وائرس کا علاج ڈھونڈنا ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ لیکن حال ہی میں بین الاقوامی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان نے مستقبل کا خاکہ کھینچ دیا اور بحث اس نقطے کی طرف مرکوز ہو گئی ہے کہ یہ وائرس جانے والا نہیں اور ہمیں ایک لمبے عرصے تک اس کے ساتھ رہنا ہے۔
کوئی ایسا معجزہ نہیں ہونے والا کہ ایک دوائی یا ویکسین راتوں رات اس وائرس سے انسانوں کی جان چھڑوا دے گی۔
اردو نیوز نے اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے حالیہ بیان میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ ایڈز کے وائرس کی طرح اب اس وائرس کے ساتھ رہنا بھی سیکھنا ہو گا۔ کیا یہ مایوس کر دینے والی بات ہے یا یہ لڑائی بہت پیچیدہ ہے؟

’ڈبلیو ایچ او نے کوئی انوکھی بات نہیں کی‘

ڈنمارک کی آرہوس یونیورسٹی کے ایمیونولاجیکل انجینرنگ گروپ کے ساتھ کام کرنے والے پاکستان کے ایک ڈاکٹر عابد حسین قریشی سمجھتے ہیں کہ ’میرے نزدیک یہ بیان ایک انتہائی نارمل بیان ہے اس میں نہ تو کوئی اچھنبے کی بات ہے نہ کوئی نئی بات ہے اور نہ اس کو ایسے سمجھنا چاہیے کہ کورونا وائرس کو ختم کرنے کی جو کوششیں ہو رہی تھیں وہ ناکام ہو گئی ہیں۔ لہذا اب انسانوں کا مقدر اسی وائرس سے وابستہ ہو چکا ہے۔ میرے پاس یہ کہنے کی وجہ ہے کیونکہ جس طرح کی مصیبت کا ہمیں سامنا ہے اس کا حل جلد کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔‘
ڈاکٹر عابد حسین قریشی کہتے ہیں کہ کسی بھی وائرس کا علاج ڈھونڈنا ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ ابھی تو صرف اس وائرس کے جینیٹک کوڈ کی سٹڈی مکمل ہوئی ہے، اور اب اگلا فیز ہے جس میں اس کے بائیو کیمیکل عوامل پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک انتھک اور بے انتہا لمبا کام ہے یہ جو لوگ مر رہے ہیں، اور وہ لوگ جو مر نہیں رہے لیکن اچھے خاصے متاثر ہو رہے ہیں اور پھر وہ لوگ ہیں جن میں سرے سے کوئی علامت ہی ظاہر نہیں ہو رہی ان سوالوں کے مصدقہ جواب ڈھونڈنے کے لئے بہت وقت درکار ہے۔‘

’کوووڈ 19کی 60 سے 70 فیصد مماثلت سارس اور کورونا وائرس کے دیگر قبیلے سے ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’اور میں سمجھتا ہوں کہ 2003 کے سارس کورونا وائرس اور پھر مرس کورونا وائرس پر دنیا میں تحقیقات نہ روکی جاتیں تو آج ہم بہت بہتر پوزیشن میں ہوتے اور سارا کام صفر سے شروع نہ کرنا پڑتا۔‘
پاکستان کے شہر لاہور کے علامہ اقبال میڈیکل کالج کے شعبہ مائکروبیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحان رشید کا نقطہ نظر بھی کچھ مختلف نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کوووڈ 19کی 60 سے 70 فیصد مماثلت سارس اور کورونا وائرس کے دیگر قبیلے سے ہے۔ اس کا علاج فوری ڈھونڈ لینا تقریبا نا ممکن ہے اور اس کے لیے ڈھیر سارا وقت درکار ہے اور ڈبلیو ایچ او کی بات حقائق پر مبنی ہے۔
’ویکسین کی تیاری کے چار مراحل ہوتے ہیں پہلے دو لیبارٹری کے اندر ہی ہوتے ہیں جن میں اینٹی باڈیز بنا کر تجربہ کیا جاتا ہے اس کے بعد پھر جانوروں پر ٹیسٹ کرنے کا مرحلہ آتا ہے پھر انسانوں پر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔‘

کورونا سمارٹ وائرس کیوں ہے؟

ڈاکٹر فرحان رشید کہتے ہیں کورونا وائرس پر اب تک کی تحقیقات میں جو کچھ سامنے آیا ہے وہ اتنا نہیں کہ اس کا توڑ نکل سکے۔
’یہ ایک ٹرائل اینڈ ایرر والی اپروچ ہوتی ہے۔ خوردبینی مخلوق کی ایک کائنات ہے اور یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہماری طرح وہ بھی زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اور جب ایک وائرس کی بقا ہی انسان پر پنپنے میں ہو تو وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے گا۔ اس لیے میں کورونا وائرس کو سمارٹ وائرس کہتا ہوں۔‘
’انہوں نے کہا کہ یہ سمارٹ وائرس کیسے ہے یہ بات سمجھانے کے لیے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ وائرس کو آپ ایک عمارت کی طرح دیکھیں جس کے کچھ حصے وہ ہیں جن سے وہ اٹیک کرتا ہے۔ فرض کریں وہ اس کا دروازہ یا کھڑکی ہے۔ جب ویکسین بنائی جاتی ہے تو اس عمارت کے وہی فعال حصے استعمال کر کے بنائی جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر فرحان کے مطابق آپ کسی بھی خوردبینی جرثومے کو کبھی سو فیصد ختم نہیں کر سکتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر فرحان کے مطابق ’ان فعال حصوں کو ڈھونڈنا ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔ اور فرض کیا آپ نے وہ دروازہ ڈھونڈ بھی لیا اور ویکسین بنا بھی لی۔ اور اس وائرس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس دروازے کے سائز اور رخ میں تبدیلی کر سکتا ہے تو آپ کی ویکسین فارغ ہو گئی اس لئے میں اسے سمارٹ وائرس کہتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آپ کسی بھی خوردبینی جرثومے کو کبھی سو فیصد ختم نہیں کر سکتے اس کی صلاحیت کو کم کر سکتے ہیں اس کو بے اثر کر سکتے ہیں لیکن ختم نہیں کر سکتے۔
’کسی بھی وائرس کی ویکسین بنانے کے لیے 10 سے 15 سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ پوری دنیا کے وسائل جھونک دیں، جیسا کہ ابھی کیا جا رہا ہے، تو ہم شاید اس سے پہلے ویکسین بنا لیں، لیکن اس ویکسین کے جو مراحل ہیں جن سے اس کو گزرنا ہے ان کو ختم نہیں کر سکتے۔‘
ڈاکٹر عابد حسین قریشی کہتے ہیں اس کی بڑی وجہ وہ تنوع ہے جو اس وائرس کے اندر موجود ہے یہ کوئی دو جمع دو والا معاملہ نہیں ہے۔

شیئر: