Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'ہمارے ہاں حالات بہت زیادہ خراب نہیں ہیں'

عمران خان نے کہا کہ یمشکل وقت کا مل کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک ویکسین نہیں آ جاتی تب تک کورونا کے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا اور یہ عرصہ ایک سال تک ہو سکتا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں ٹیلی ہیلتھ پورٹل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس اقدام کو اہم قرار دیتے ہوئے ڈاکٹرز اور شعبہ طب سے جڑے دوسرے افراد کو اس میں رجسٹریشن کرانے کی ہدایت کی۔
’وہ لیڈی ڈاکٹرز جنہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور گھروں میں ہیں، وہ اس کے ذریعے گھروں سے ہی عوام کی خدمت کر سکیں گی۔‘
عمران خان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مشکل وقت ہے اور مل کر ہی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیلی ہیلتھ پورٹل کورونا ایشو کے بعد بھی کام آتا رہے گا۔
’لگتا یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا کے کیسز کی تعداد بڑھے گی، صورت حال سے نمٹںے میں پورٹل اہم کردار ادا کرے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ دور دراز علاقوں میں کورونا کے کیسز اور دوسرے صحت سے متعلق مسائل سے نمٹنے میں ٹیلی ہیلتھ پورٹل فائدہ مند ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں شعبہ صحت پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے آج مسائل کا سامنا ہے۔
عمران خان نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی ہمارے ہاں حالات بہت زیادہ خراب نہیں ہیں۔
’ترقی یافتہ ممالک کے حالات بہت خراب ہیں، ابھی ہمارے ہاں ہسپتالوں پر بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔‘

عمران خان نے بتایا کہ ٹیلی ہیلتھ پورٹل کورونا کے بعد بھی کام آتا رہے گا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ پہلے ہم نے ٹیلی ایجوکیشن کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے اچھے نتائج آ رہے ہیں۔
’پی ٹی وی کے ذریعے سکول کے بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔‘
وزیراعظم نے ٹائیگر فورس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس میں کافی تعداد شعبہ طب سے وابستہ ہے۔'
’برطانیہ نے رضاکاروں کے لیے نام مانگے تو ڈھائی لاکھ افراد آگے آئے، ہمارے ہاں دس لاکھ سے زائد نے رجسٹریشن کرائی۔‘
قبل ازیں وزیراعظم کی معاون تانیہ ایدروس نے ٹیلی ہیلتھ پورٹل کے بارے میں بریفنگ دی۔

وزیراعظم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں کورونا کیسز کی تعداد بڑھے گی (فوٹو: اے ایف پی)

اس موقع پر معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی ٹیلی ہیلتھ پورٹل کی افادیت پر بات کی اور کہا کہ 'اس کے نتائج دور رس ہوں گے۔'
انہوں نے کہا کہ کسی بھی میڈیکل کالج میں دیکھ لیں 70 فیصد خواتین ہوتی ہیں تاہم سب فیلڈ میں نہیں آتیں اور شادی کے بعد گھر اور بچوں کو سنبھالتی ہیں۔
’یہ ایک مشکل صورت حال ہے جس میں یہ خواتین ڈاکٹرز بھی اپنے گھر سے دوسروں کی مدد کر سکتی ہیں۔‘
انہوں نے اپیل کی کہ زیادہ سے زیادہ افراد رجسٹریشن کرائیں۔

شیئر: