Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’احتجاج کرنے والے شعبے کو حکومت کھول دیتی ہے‘

طلبہ کا مطالبہ ہے کہ انہیں فیسیں واپس کی جائیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
لاک ڈاؤن کے دوران معمول کی تعلیمی سرگرمیوں سے دُور اور گھروں تک محدود طلبہ کی جانب سے ٹوئٹر پر آن لائن کلاسز کے نظام پر تنقید کے حوالے سے مختلف ٹرینڈز اکثر اوقات سامنے آتے رہے ہیں اور اس وقت ایسا ہی ایک ٹرینڈ ’نو کلاسز نو فیس‘ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
اس ٹریند میں طلبہ نے آن لائن کلاسز کے ساتھ ساتھ فیس کو اپنا موضوع بنایا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کلاسز نہیں ہو رہیں تو پھر فیس معاف کی جائے اور امتحانات لینے کا فیصلہ واپس لے کر انہیں ملتوی کیا جائے، یا پھر پچھلے سمسٹرز کی بنیاد پر انہیں اگلی کلاسز میں پروموٹ کر دیا جائے۔
طلبہ نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ یونیورسٹیوں کو بھاری بھرکم فیسیں گھر بیٹھ کر آن لائن کلاسز کے لیے نہیں دی تھیں۔
ایک طلبہ تنظیم سے وابستہ معظم شہزاد نے لکھا کہ ’ہمارے والدین نہ تو کاروباری ہیں اور نہ ہی بیوروکریٹ ہیں جو ان معاشی حالات میں یہ تمام اخراجات برداشت کر سکیں۔‘

اس سے قبل ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آن لائن کلاسز کے اعلان پر طلبہ نے حکومت کی مختلف یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ اس صورت حال میں آن لائن کلاسز جس طرح ممکن بنائی جا رہی ہیں وہ مفید نہیں ہے۔
جہاں طالبات نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا وہیں اساتذہ بھی تنخواہ نہ ملنے پر غصہ کرتے دکھائی دیے۔
ایک صارف شوریم یوسف نے لکھا کہ ’یہی مطالبہ اساتذہ کا ہے۔ ہمیں ابھی تک تنخواہیں نہیں ملیں ابھی تک جو شعبہ احتجاج کرتا ہے حکومت اسی شعبے کو  کھول دیتی ہے۔‘

گفتگو میں حصہ لینے والے صارفین میں سے خاصی تعداد ایسے افراد کی بھی شریک رہی جو انٹرنیٹ، ڈیوائسز اور بجلی سے متعلق مسائل کی موجودگی میں آن لائن کلاسز پر تنقید کرتے رہے۔
جنوبی وزیرستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کا کہنا تھا کہ یہاں کے طلبہ آن لائن کلاسز میں پڑھنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ انٹرنیٹ کی غیر موجودگی ہے۔
احتشام کا کہنا تھا کہ ’جب ایس او پیز کا خیال کرتے ہوئے مارکیٹیوں اور دکانوں کو کھولا جاسکتا ہے تو تعلیمی اداروں کو کیوں نہیں کھولا جا سکتا؟‘

 

شیئر: