Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں تھیٹر کی بحالی کے لیے کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟

فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے مدد نہ کی تو دو لاکھ ملازمتیں ختم ہو جائیں گی (فوٹو: ٹوئٹر)
لندن کے ’ویسٹ اینڈ‘ تھیٹر کے شوز دیکھنے کے لیے روایتی طور پر دنیا بھر سے شائقین آتے ہیں تاہم کورونا وائرس نے تھیٹرز کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل شدہ حالات کے مطابق ڈھالیں۔
’ویسٹ اینڈ‘ کے شوز بشول مشہور زمانہ ’دی پینتھم آف دی اوپیرا‘، ’لیس میزرایبل‘ اور آگاتھا کرسٹی کی ’دی ماؤس ٹریپ‘ کے سالانہ ڈیڑھ کروڑ ٹکٹس فروخت ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ ’ماؤس ٹریپ‘ 1952 سے اس ٹھیٹر میں پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد مارچ میں تھیٹر بند ہو گئے جس کے بعد سوشل ڈیسٹنگ اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے ٹھیٹر کا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے۔
تاہم ’ہارٹشورن ہوک پروڈکشن‘ کے شریک بانی لوئس ہارٹشورن اور برائن ہوک ان اولین لوگوں میں سے ہیں جہنوں نے اپنے آپ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد کے حقائق سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔
انہوں نے’دی گریٹ گیٹس بائی‘ کو  ’ایمرسیو تھیٹر‘ میں تبدیل کر کے اکتوبر میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برائن ہوک نے اے ایف پی کو بتایا کہ شائقین ماسک پہنیں گے اور اگر چاہیں تو دستانے بھی اور اپنے آپ کو کھیل میں شامل کریں گے۔
شائقین کی تعداد کو 240 سے کم کر کے 90 کر دیا گیا ہے اور شو کے شیڈول کو بھی تبدیل کیا گیا ہے تاکہ ہال کی صفائی کے لیے مناسب ٹائم مل سکے۔
ہوک کے مطابق ’اچھی خبر یہ ہے کہ ٹکٹیں بک رہی ہے اور لوگ تھیٹر واپس آنا چاہتے ہیں۔‘
لیکن ہارٹشورن نے تسلیم کیا کہ ’نقصان سے بچنے کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا ہوگی کیونکہ نمبرز ہمارے خلاف ہیں۔‘

برائن ہک کے مطابق وہ شوز جن میں شائقین دلچسپی لیں گے ونر ہوں  گے (فوٹو سلائیڈ)

تاہم تھیٹرز کو سیاحوں کی عدم موجودگی کا چیلیج بھی درپیش ہے کیونکہ ہوٹلز، ریستوران اور عجائب گھر بند ہونے کی وجہ سے سیاح بالکل نہیں ہے۔
رواں مہینے کی آٹھ تاریخ کو حکومت کی جانب سے برطانیہ آنے والوں کے لیے 14 دن لازمی قرنطینہ کے اعلان نے بھی تھیٹرز کی جلد بحالی کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
لندن کے تھیٹرز میں سائقین کی ایک تہائی تعداد غیر ملکی سیاح ہوتے ہیں۔ ’یو کے تھیٹر‘ لابی گروپ کے سربراہ جولین برڈ کا کہنا ہے کہ اس وقت غیرملکی سیاحوں کی آمد کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے خبردار کیا سال کے آخر تک 70 فیصد تھیٹرز دیوالیہ ہو جائیں گے۔
’آکسفورڈ اکنامکس فار کریٹیو انڈسٹریز فیڈریشن‘ کی ایک تحقیق کے مطابق اس سال تھیٹرز کے ریونیوز میں تین ارب 70  کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے جو کل ریونیو کا 60 فیصد ہے۔
فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے مداخلت نہ کی تو دو لاکھ سے زائد ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔
کچھ تھیٹرز اپنی بقا کے لیے متبادل پروڈکٹس پیش کر رہے ہیں۔
لندن کے اولڈ وک تھیٹر میں مشہور ٹی وی سیریز ‘دی کراؤن‘ کے سٹارز کلیری فوئی اور میٹ سمتھ ’لنگس‘ نامی کھیل پیش کریں گے۔ پرفارمنس کے دوران وہ آپس میں فاصلہ رکھیں گے اور شائقئیں تھیٹر میں نہیں ہوں گے۔
ہر پرفارمنس کو ٹکٹس لینے والے ایک  ہزار شائقین کے لیے ہراہ راست نشر کیا جائے گا۔

کچھ تھیٹرز اپنی بقا کے لیے متبادل پروڈکٹس پیش کر رہے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

یہ ایک ایسے وقت میں جب کئی ایک تھیٹرز نے کورونا سے پہلے فلمائے گئے کھیل فری میں آن لائن پیش کر دیے ہیں، ایک ’دلیرانہ جوا‘ ہے۔
برائن ہوک کے مطابق وہ شوز جن میں شائقین دلچسپی لیں گے، ونر ہوں گے۔
ان کے مطابق 'ہم کورونا بحران سے پہلے ایمرسیو تھیٹر (جس کے دوران شائقین بھی کھیل میں شامل ہوتے ہیں) کے عروج پر تھے۔‘
روایتی تھیٹر میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ایک حقیقی سر درد ہے۔  رائل شیکسپئر کپمنی کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق دو میٹر کا فاصلہ برقرار رکھ کر وہ صرف 20 فیصد شائقین کو اکاموڈیٹ کر سکتے ہیں۔
’سٹینڈر اپان ایون‘ کمپنی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرائن میلیون کے مطابق ’عارضی چھٹیوں کی نوعیت آئندہ مہنیوں میں تبدیل ہوگی اور آخر کار اس کا احتتام ہوگا اور یہ ٹھیٹر کے لیے انتہائی  کمزور لمحہ ہوگا۔‘

شیئر: