Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سو جوتے سو پیاز

تھوڑا پیچھے جائیں تو ہمارا آغاز حوصلہ افزا تھا اور ہمارے اقدامات بھی مناسب تھے (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا کا پاکستان میں خیر سے چوتھا مہینہ ہے۔ سب خوش گمانیاں اور اندازے ہوا ہیں۔ کورونا فلو ہے، پاکستانیوں کی قوت مدافعت بہتر ہے، پاکستان میں کورونا کا کمزور وائرس ہے، جنوبی ایشیا میں اس کا اثر کم ہے۔ ہم نے خود کو جو فریب دیے وہ کب کے ہوا ہو چکے ہیں۔
کورونا پوری طاقت سے آ چکا ہے۔ تین ہزار جانیں جاچکی ہیں۔ آگے آنے والے دن مزید خرابی کا پیغام لا رہے ہیں۔ اس سے نظام صحت پر بوجھ سے عام مریض رل رہے ہیں اور کورونا کے علاوہ باقی کریٹیکل مریض بھی ہر روز زندگی اور موت کے بیچ پل صراط سے گزر رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ کیا یہاں تک پہنچنا ہمارے لیے ناگزیر تھا؟ کیا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا؟ اور آگے ہماری پالیسی کیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات ہی یہ تعین کریں گے ہمارے لیے آگے کیا ہے؟
اگر ہم تھوڑا پیچھے جائیں تو ہمارا آغاز حوصلہ افزا تھا۔ چین سے ہمسائیگی کے باوجود ہمارے ہاں کورونا کی آمد دیر سے ہوئی۔
ہمارے اقدامات بھی مناسب اور موزوں تھے۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کیا اور اس سے مزید پھیلاؤ بھی رکا مگر جونہی کیسز بڑھنا شروع ہوئے ہمارے ہاں لاک ڈاؤن کو گالی بنا دیا گیا۔
عید پر حالات مزید کُھلے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اب اگر پیچھے دیکھیں تو موجودہ حالات ہم نے اپنے اوپر خود مسلط کیے ہیں۔ صحیح وقت پر لاک ڈاؤن کر کے ہم نا آگے جا سکتے ہیں اور نا پیچھے۔
اب سمارٹ لاک ڈاؤن اور ٹارگٹڈ لاک ڈاؤن کر کے وہی کام دوبارہ کر رہے ہیں۔ ہفتوں سے وزرا کی طرف سے پِیک کی شنید سنائی دے رہی تھی، کبھی جون کبھی جولائی۔ آگےصرف تاریخیں ہیں اور مریضوں کی آزمائش۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم یہاں تک پہنچے نہیں پہنچائے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

کیا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا؟ ہماری وفاقی حکومت اور وزیر اعظم نے اتنا وقت اپنے حریف نواز شریف پر تنقید میں صرف نہیں کیا جتنا لاک ڈاؤن پر کیا۔ کبھی اس کو سازش کہا گیا اور کبھی اشرافیہ کی ضد۔
اگر اشرافیہ کاروباری طبقہ ہے تو وہ تو لاک ڈاؤن کے خلاف ہے اور پھر یہ کیسا اشرافیہ ہے جو پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کو مجبور کرتا ہے اور وزیراعظم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ ہم یہاں تک پہنچے نہیں پہنچائے گئے ہیں اور پہنچانے والے وہ ذمہ دار ہیں جو کورونا کو کبھی فلو کہتے رہے اور کبھی لاک ڈاؤن کو سازش۔
آخر میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہماری پالیسی آج کی تاریخ میں ہے کیا؟ بار بار ارباب اختیار سے پوچھا گیا۔ کسی سے واضح جواب نہیں ملا۔ ہرڈ امیونٹی عملی طور پر ہدف نظر آتی ہے مگر کوئی اس کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔
ہسپتال عملی طور پر اپنی استطاعت سے اوپر جا چکے ہیں جبکہ مریضوں میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ عوام اپنے مریضوں کے لیے پلازما سے لے کر آکسیجن تک خریدنے پر مجبور ہیں۔

ایک طرف مریضوں کی قطاریں ہیں اور دوسری طرف علاقوں پر علاقے محصور ہیں (فوٹو: روئٹرز)

دوسری طرف وزرا کی طرف سے لوگوں کو طعنے اور وزیر اعظم کی طرف سے احتیاط کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔
جب اموات اس طرح بڑھیں گی تو لاک ڈاؤن ٹارگٹڈ سے پھیل کر عمومی ہوتا چلا جائے گا۔ بیماری سے نقصان بھی ہوا اور لاک ڈاؤن اٹھانے کے ثمرات بھی نا ملے۔
ایک طرف مریضوں کی قطاریں ہیں اور دوسری طرف علاقوں پر علاقے محصور ہیں۔ 22 کروڑ عوام میں سے کتنوں کا امتحان ابھی باقی ہے کچھ پتا نہیں۔ آگے مستقبل میں کیا حکمت عملی ہو گی اس کا کسی کو بشمول حکومت بھی کچھ پتا نہیں۔
ایسے میں جو قومی پالیسی سامنے نظر آتی ہے وہ ہے سو جوتے اور سو پیاز۔۔۔۔

شیئر: