Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آپ بتائیں بے نظیر بھٹو شہید ہیں یا اسامہ بن لادن‘

بجٹ اجلاس کے آخری روز وزیراعظم عمران خان بھی شریک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے وفاقی بجٹ 2020 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔ اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ منظوری کے موقع پر بھی حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان نوک جھونک اور تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ 
پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو گذشتہ دنوں کی نسبت زیادہ تعداد میں ارکان ایوان میں موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان ماسک کے ساتھ ساتھ فیس شیلڈز لگا کر ایوان میں آئے۔
اپوزیشن ارکان نے آغاز ہی میں بجٹ مخالف پلے کارڈز ایوان میں لہرانا شروع کر دیے اور نعرے بھی بلند کیے۔ 
رکن اسمبلی سید نوید قمر نے مشورہ دیا کہ 'آج ایوان کی گیلریوں کو بھی ایوان کا حصہ قرار دیا جائے تاکہ سماجی فاصلے کو یقینی بنایا جا سکے۔'
خواجہ آصف بولے کہ 'ہمیں معلوم ہوا کہ حکومت بجٹ پر ووٹ کے لیے کورونا کے مریض اراکین کو بھی لائی۔ سپیکر یقین دہانی کرائیں کہ کورونا کا کوئی مریض ایوان میں نہیں ہے۔'
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان کو یقین دلایا کہ کورونا کا شکار کسی رکن کو ایوان میں لے کر نہیں آئے۔ 
خواجہ آصف نے بجٹ پر تقریر شروع کی تو ان کے ماسک پہنے بغیر گفتگو کرنے پر شیریں مزاری نے اعتراض اٹھایا۔ خواجہ آصف نے انھیں جواب دیا کہ 'شیری مزاری میرے سامنے نہیں ہیں، ان کو کوئی خطرہ نہیں۔ ان کو تو ویسے بھی کوئی خطرہ نہیں۔' 
خواجہ آصف کا خطاب طویل ہوا تو وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے انہیں لقمہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہن بس وی کر دیو کتنا بولو گے۔‘ جس پر خواجہ آصف برہم ہوئے اور بولے ’میں تمہارے متعلق ایسی ایسی بات کروں گا کہ یہاں ایوان میں بیٹھنا مشکل ہو گا۔ جناب سپیکر یہ شخص مجھے 13 روز سے تنگ کر رہا ہے۔

فواد چوہدری نے سپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ خواجہ آصف کی تقریر بند کرائی جائے (فوٹو: اے ایف پی)

جواب میں فواد چودھری غصے میں آگئے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ خواجہ آصف کو کہیں کہ معافی مانگیں۔ ان کی تقریر بند کرائیں۔ ’سپیکر صاحب آپ رولز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ ’سپیکر صاحب میں آپ کے چیمبر میں آ کر اس معاملے کی وجہ بتا دوں گا۔‘ 
خواجہ آصف کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معیشت کی بدحالی پر وزیراعظم سے قوم سے معافی مانگنے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ 
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’یہ وزیراعظم اسامہ بن لادن کو شہید کہتا ہے۔ لیکن سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو شہید نہیں کہہ سکتا۔ یہ احسان اللہ احسان اور بیت اللہ محسود کو شہید کہہ سکتا ہے۔‘
اس دوران بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو ’بزدل وزیراعظم‘ بھی قرار دے دیا جس کے بعد ایوان میں شدید بدنظمی پیدا ہوگئی۔
سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ 'کسی ایم این اے کے خلاف بھی ایسا لفظ مناسب نہیں ہے۔ بلاول صاحب آپ بزدل کا لفظ واپس لے لیں۔ وہ وزیراعظم پاکستان ہیں۔ ایسا لفظ نہ بولیں۔'

مراد سعید تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی (فوٹو: سکرین گریپ)

بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ ’آپ وزیراعظم کے الفاظ حذف نہیں کر رہے۔ ہمارے الفاظ حذف کرتے ہیں۔‘ 
اس موقعے پر بلاول نے حکومتی وزراء اور ارکان کے نام لے لے کر انہیں مخاطب کرنا شروع کیا اور ان سے سوال کیے۔
انہوں نے کہا کہ ’فواد چوہدری صاحب آپ بتائیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہیں یا اسامہ بن لادن، شاہ محمود قریشی صاحب آپ سوال کا جواب دیں۔ فہمیدہ مرزا آپ بتائیں محترمہ بینظیر شہید ہیں یا اسامہ بن لادن؟‘
حسب سابق بلاول بھٹو کے خطاب کے بعد مراد سعید کو فلور ملا تو اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی۔ سپیکر نے شاہ محمود قریشی کو اپوزیشن کو منانے کا کہا تو مراد سعید نے کہا کہ ’میری تقریر ختم ہوگی تو اپوزیشن ایوان میں واپس آ جائے گی۔‘ 
مراد سعید کا خطاب ختم ہوا تو اپوزیشن ایوان میں واہس آگئی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’مراد سعید تو نجومی بن گئے جن کو پہلے ہی پتا تھا کہ ان کے بیٹھنے پر اپوزیشن واپس آ جائے گی۔‘ 
اجلاس کے دوران روایتی حریفوں مولانا اسعد محمود اور علی امین گنڈا پور کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی۔

خواجہ آصف کو ماسک اتار کر تقریر کرنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا (فوٹو: اے ایف پی)

اسعد محمود نے علی امین گنڈا پور کو ’شہد کی بوتلوں‘ کا طعنہ دیا اور کہا کہ ’میں علی امین گنڈا پور کا چیلنج قبول کر چکا ہوں۔ امور کشمیر کے وزیر کو آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومتوں کا نام تک نہیں آتا۔
جواب میں علی امین نے کہا کہ 'میرا چیلنج مولانا فضل الرحمان کو تھا جو لسی پی کر ڈیرے میں بیٹھے ہیں۔ میں آج بھی اپنے چیلنج پر قائم ہوں اپنے والد سے کہو کہ وہ میرا چیلنج قبول کریں۔'
بجٹ منظوری کا مرحلہ شروع ہوا تو ساتھ ہی سپیکر اسد قیصر کا ’امتحان‘ بھی شروع ہو گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی شیزا فاطمہ خواجہ کا نام بھول گئے۔
سپیکر نے ’شوزا فاطمہ خواجہ‘ کہہ کر مخاطب کیا تو شیزا فاطمہ نے کہا کہ ’میرا درست نام شیزا فاطمہ خواجہ ہے۔‘ سپیکر کے دوسری اور تیسری مرتبہ بھی غلط نام پکارنے پر ایوان میں قہقہے لگتے رہے۔ 
شائستہ پرویز ملک نے تبصرہ کیا کہ 'خٹک بے چارا بہت ہی کنفیوز ہو گیا ہے۔' شائستہ پرویز ملک کی آواز ایوان میں گونج گئی جس سے ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔ 
اس دوران شیری مزاری کی طرف سے سپیکر کو ایڈوائس بھیجی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی شیریں مزاری کے جملے پر برہم ہو گئے اور کہا کہ ’مجھے رولز کا پتا ہے، رولز کے مطابق ایوان چلاؤں گا۔ آپ کی طرف سے ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔‘

بلاول بھٹو نے وزیراعظم نے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا (فوٹو: اے ایف پی)

سپیکر قومی اسمبلی کے جواب پر اپوزیشن نے ڈیسک بجا کر انہیں داد دی۔ 
فنانس بل کی شق وار منظوری کے دواران اپوزیشن نے دو بار زبانی ووٹنگ کو چیلنج کیا۔ جس پر کھڑے ہو کر ووٹ دیے گئے اور گنتی کے بعد حکومت کو 160 جبکہ اپوزیشن کو 119 ووٹ ملے۔ 
اپوزیشن نے اپنی ترامیم مسترد ہونے پر بھی احتجاج کیا، پلے کارڈ لہرائے اور نعرے بازی کی۔
فنانس بل منظور ہوا تو حکومتی بینچوں نے بھی نعرہ بازی کی۔ بجٹ اجلاس کے آخری روز وزیراعظم عمران خان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس کے دوران یہ ان کی مجموعی طور پر تیسری حاضری تھی۔ 

شیئر: