Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ: حیدرآباد میں نوجوان پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دو ملزم گرفتار

پولیس کے مطابق فرحان کیریو کی ایک سال قبل زین شاہ، ارسلان سومرو، علی بلوچ، عبدالرحمان اور منیر ڈاھوٹ سے تلخ کلامی ہوئی تھی (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں تھانہ ہٹڑی کی حدود میں ایک نوجوان پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو ملزموں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ابتدائی تفتیش میں واقعے کو ذاتی رنجش کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے۔
سندھ کے شہر حیدرآباد میں ایک مقامی فنکارہ کے نوجوان بیٹے فرحان کیریو کو چند منچلے لڑکوں نے مبینہ طور پر اغوا کر کے بائی پاس جلسہ گاہ گراؤنڈ کے قریب شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی گئی اور بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔
ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ فرحان کو ہاکی، لاٹھی اور پسٹل کے بٹ سے مارا پیٹا گیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اس دل دہلا دینے والے منظر نے لوگوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد عوامی دباؤ پر حیدر آباد پولیس متحرک ہوئی۔
ایس ایس پی حیدرآباد عدیل حسین چانڈیو نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او ہٹڑی غلام فاروق راہوپوٹو کو واقعے کی مکمل تفتیش اور ملزموں کی گرفتاری کے احکامات دیے۔
پولیس نے متاثرہ نوجوان کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کی اور اسے نزدیکی ہسپتال منتقل کیا۔ ابتدائی تفتیش میں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ واقعہ کوئی اتفاقیہ حملہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پرانی ذاتی رنجش کارفرما تھی۔
حیدرآباد پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابتدائی تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ نوجوان فرحان کیریو کی ایک سال قبل زین شاہ، ارسلان سومرو، علی بلوچ، عبدالرحمان اور منیر ڈاھوٹ سے تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ان کے درمیان کشیدگی جاری تھی۔ مبینہ طور پر اسی رنجش کو بنیاد بنا کر ملزموں نے فرحان کو دوبارہ نشانہ بنایا جس کی ویڈیو بھی بنائی گئی جسے بعد میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا گیا۔‘
یہ واقعہ ایک مجرمانہ سرگرمی ہے ہی بلکہ اس سے کئی اہم سماجی اور اخلاقی سوالات بھی جنم لیے ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نائمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا کا استعمال آج کل معلومات کے تبادلے کے لیے تو کیا جا رہا ہے مگر اس کا منفی استعمال بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی انسان جب کسی دوسرے پر تشدد کرتا ہے اور پھر اس کی ویڈیو فخریہ انداز میں اپ لوڈ کرتا ہے تو یہ صرف جرم نہیں بلکہ سماجی زوال کی نشانی ہے۔ یہ عمل متاثرہ فرد کے لیے صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور جذباتی اذیت کا باعث بھی بنتا ہے۔‘
پولیس نے متاثرہ نوجوان کے بھائی کامران علی کیریو کی مدعیت میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ان دفعات کے باعث یہ ایک سنگین مقدمہ ہے جس میں قاتلانہ حملہ، سنگین دھمکیاں، توہین، اور ہجوم میں تشدد جیسے جرائم شامل ہیں۔
ترجمان حیدرآباد پولیس کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے کارروائی کے دوران دو مرکزی ملزموں ارسلان سومرو اور علی بلوچ کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ باقی مفرور ملزموں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر نائمہ سعید اس واقعے کو نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی کی علامت قرار دیتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

فرحان کیریو اس وقت ہسپتال میں زیرعلاج ہیں اور ان کا خاندان ان کی صحت کو لے کر پریشان ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق پولیس اگر مؤثر طریقے سے کیس کو آگے بڑھائے اور عدالت میں مکمل شواہد فراہم کرے تو ملزموں کو سخت سزا دی جا سکتی ہے۔
ویڈیو بطور ثبوت عدالت میں پیش کی جا سکتی ہے، اور یہ مجرموں کے خلاف اہم شہادت بن سکتی ہے۔ لیکن ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے عوام کو یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں کیس کو کمزور نہ کر دیا جائے یا سیاسی دباؤ کے تحت فیصلہ تبدیل نہ ہو جائے۔
ڈاکٹر نائمہ سعید اس واقعے کو نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی کی علامت قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نوجوانوں میں برداشت کی کمی، غصے کی زیادتی اور فوری انتقام لینے کا جنون اب ایک عام مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف تعلیمی نظام یا خاندانی تربیت کا نہیں بلکہ معاشرتی رویوں اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا بھی نتیجہ ہے۔ ایسے واقعات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بطور معاشرہ کہاں کھڑے ہیں، اور ہماری ترجیحات کیا ہیں؟‘
اس واقعے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ڈاکٹر نائمہ کہتی ہے کہ اگرچہ پولیس نے بروقت کارروائی کی مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر نہ آتی تو کیا پولیس اتنی تیزی سے حرکت میں آتی؟ کیا ہمیں جرائم کا علم صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہونا چاہیے؟ کیا ہماری پولیس کا نظام اتنا فعال ہے کہ یہ بغیر دباؤ کے مظلوم کو انصاف فراہم کر سکے؟
انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے مواد کو روکنے کے لیے فلٹرنگ سسٹمز بنائیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ایسے معاملات میں سختی سے کارروائی کرنی چاہیے تاکہ اس طرح کی ویڈیوز عوامی سطح پر وائرل نہ ہوں۔‘
’اس کے علاوہ، عوامی آگاہی مہمات بھی ضروری ہیں تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ کسی کی ویڈیو بنانا اور بغیر اجازت شیئر کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ قابل سزا جرم بھی ہے۔‘

 

شیئر: