Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خسارے کا وفاقی بجٹ لیکن کوئی نیا ٹیکس نہیں

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مالی سال 2021-2020  کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔
بجٹ کی تقریر پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کا کہنا تھا کہ عوام کی سہولت کے لیے عام خریدار کے لیے بغیر شناختی کارڈ کے خریداری کی حد کو پچاس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ 
خیال رہے کہ گذشتہ وفاقی بجٹ میں حکومت نے ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پچاس ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط عائد کی تھی۔

 

حکومت کے گس فیصلے پر نہ صرف کاروباری طبقے کی جانب سے شدید اعتراض  کے ساتھ احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
جٹ کی تقریر پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 'بجٹ خسارہ گزشتہ حکومت میں 23 سو ارب پر پہنچ چکا تھا اور ملک دیوالیہ کے قریب تھا۔' اس پر اپوزیشن ارکان کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا.
حماد اظہر نے کہا کہ معاشی بحران ورثے میں ملا۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت کے دو سال کے دوران کرپشن کا خاتمہ ،احتساب رہ نما اصول رہے۔ ’مشکل سفر سے ابتدا کی معیشت کی بحالی کیلئے اقدامات کیے۔‘
انہوں نے کہا کہ مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔

ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ میں کمی

حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ میں کمی کی ہے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے حماد اظہر کا کہنا تھا  بجٹ میں کل ریونیو کا تخمینہ 6  ہزار 573 روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو چار ہزار 963 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیوایک ہزار 610 روپے ہے۔

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

خیال رہے گزشتہ مالی سال 2019-2020 کے لیے ایف بی آر کا ٹارگٹ پانچ ہزار 550 ارب روپے تھا۔ حماد اظہر نے بتایا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت دو ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو ٹرانسفر کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا بجٹ میں خالص وفاقی ریونیو کا تخمینہ تین ہزار 700 ارب روپے ہے جب کہ کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ سات ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
حماد اظہر کے مطابق بجٹ خسارہ تین ہزار 437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو کہ جی ڈی پی کا سات فیصد بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ 20ارب ڈالر کی انتہائی سطح پر تھا جب کہ بجٹ خسارہ 2300ارب کی انتہا پر پہنچ چکا تھا۔
’گزشتہ پانچ سالوں میں برآمدات میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا ۔بجٹ خسارہ گزشتہ حکومت میں 23 سو ارب پر پہنچ چکا تھا اور ملک دیوالیہ کے قریب تھا ۔

بجٹ تقریر کے دوران جب حماد اظہر نے سابق حکومت پر تنقید کی تو اپوزیشن اراکین نے احتجاج کیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے دو سال میں نمایاں اعشاریے بہتر کئے ۔ ’تجارتی خسارے میں 31 فیصد کم کی گئی، اور بجٹ خسارہ بھی تین فیصد تک لایا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مالی سال میں 1160 ارب کے مقابلے میں 1600 ارب ریونیو حاصل کریں گے۔  حماد اظہر نے کہا نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ 
انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی۔ ماضی کے بھاری قرضوں کی وجہ سے 2 سالوں میں بھاری سود ادا کیا۔
انہون نے بتایا کہ پاکستان ریلوے کے لیے  40 ارب روپے مختص، کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 2 ارب جب کہ پی ایس ڈی پی کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ تقریر میں حماد  اظہر کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے جاری منصوبوں کے لیے 73 فیصد جبکہ نئے منصوبوں کے لیے 27 فیصد رقم رکھنے کی تجویز ہے۔

حماد اظہر کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کے تحت دو ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو ٹرانسفر کیا جائے گا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا بجٹ میں کورونا اور دیگر آفات سے نمٹنے کے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ توانائی اور بجلی کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سگریٹ، سگار اور تمباکو پر ایف ای ڈی 65 فیصڈ سے بڑھا کر سو کرنے کی تجویز ہے جب کہ  انرجی ڈرنکس پر ایف ای ڈی تیرہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا اور کیسنر کی تشخیصی کٹس پر ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔۔
وزیر اعظم عمران خان سمیت قومی اسمبلی کے 86 ارکان بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے۔
خیال رہے بجٹ اجلاس سے قبل حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں بجٹ پر ووٹنگ کے لیے دباؤ نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر متفق ہوگئے تھے۔

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان عوامی مطالبات پر مبنی پلے کارڈز لے کر ایوان میں بیٹھ گئے

بجٹ ایسے حالات میں سامنے آرہا ہےکہ جب ملک کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پیدا ہونے والے صحت کے بحران کا سامنا ہے جس نے معیشت کو بری طرح متاثثر کیا ہے۔
بجٹ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزرا شیخ رشید اور شہریار آفریدی سمیت کم و بیش 25 ارکان قومی اسمبلی، چھ سینیٹرز اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے درجنوں ملازمین کورونا کا شکار ہو گئے۔
اب بجٹ اجلاس کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے شدہ معاہے کے مطابق محدود ارکان کے ساتھ بجٹ اجلاس منعقد ہو رہاہے۔
اجلاس سے پہلے قومی اسمبلی کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ایک وقت میں قومی اسمبلی کی کل تعداد کا 25 فیصد یعنی زیادہ سے زیادہ 86 ارکان ایوان میں بیٹھ سکیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کی مجموعی تعداد کے تناسب سے حکومت سے 46 اور حزب اختلاف سے 40 افراد اجلاس میں شریک ہیں۔

شیئر: