Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویڈیو سکینڈل: جج ارشد ملک برطرف

ارشد ملک نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنائی تھی (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت اسلام آباد کے سابق جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں قائم 7 رکنی انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں جج ارشد ملک کی برطرفی کا فیصلہ کیا گیا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انہیں باعزت بری کیا گیا تھا۔
احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے سمیت تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے گذشتہ برس 6 جولائی کو لاہور میں پارٹی کی سینیئر قیادت کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس کی تھی۔ نیوز کانفرنس میں انہوں نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا سنانے والے نیب عدالت کے جج ارشد ملک اور نوازشریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھائی تھی۔ 
مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں عدالتی فیصلے کو سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اس فیصلے سے نواز شریف پر ہی نہیں بلکہ عدل و انصاف کے دامن پر لگا ایک بڑا داغ دھویا گیا ہے۔
 وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے عدالتی فیصلے پر رد عمل میں ٹویٹ کیا کہ جج ارشد ملک کی برطرفی اس دور کا ڈراپ سین ہے جب ججز کو حواریوں کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا تھا۔
مریم نواز نے پریس کانفرنس کے دوران الزام لگایا تھا کہ 'سزا دینے والا جج خود بول اٹھا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور فیصلہ کیا نہیں صرف سنایا گیا ہے۔'

جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل 

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیوز کو جعلی قرار دیا تھا اور تمام الزامات کی تردید کی تھی۔ 
سات جولائی کو رجسٹرار احتساب کورٹ نے جج ارشد ملک کا تردیدی بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دباؤ نہیں تھا، کوئی لالچ بھی میرے پیش نظر نہیں تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز کی نیوز کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیوز نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔'

مریم نواز نے ارشد ملک کے خلاف 6 جولائی 2019 کو نیوز کانفرنس کی تھی (فوٹو: سوشل میڈیا)

ویڈیو کا معاملہ سامنے آنے کے بعد حکومت نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور انہیں اپنے ادارے لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
12 جولائی 2019 کو ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جج ارشد ملک کی خدمات وزارت قانون کو واپس کر دی گئی ہیں اور اسی روز ارشد ملک کو اسلام آباد کی احتساب عدالت سے فارغ کر کے ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی گئیں۔
سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لینے کے بعد پہلی مرتبہ 16 جولائی 2019 کو ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کی۔
اسی روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں ویڈیو سیکنڈل سے متعلق اشتیاق مرزا ایڈووکیٹ کی طرف سے دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی گئی اور 16جولائی 2019 کو کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔
16 جولائی 2019 کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں۔ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیس پر اثر پڑے گا۔

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

16 جولائی 2019 کو ہی جج ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت ان کی ویڈیو بنانے کے حوالے سے مقدمہ درج کیا۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ایف آئی اے کو بتایا تھا کہ وہ اپنا خراب ٹی وی ٹھیک کروانے ملتان میں ایک مکینک میاں طارق کے پاس لے گئے تھے جنہوں نے ان کی متنازع ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
17 جولائی 2019 کو ایف آئی اے نے ویڈیو فراہم کرنے میں ملوث ایک ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا۔
23 جولائی 2019 کو سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس پر ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم دیا۔
20 اگست 2019 کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ 23 اگست 2019 کو اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا اور کہا کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیانِ حلفی اُن کے خلاف فرد جرم ہے۔

شیئر: