Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ارشد ملک نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی‘ ہائی کورٹ

جج ارشد ملک کے مطابق لیک وڈیو حقائق کے برعکس ہے اور گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
ویڈیو سکینڈل میں سپریم کورٹ کے فیصلہ سنانے سے ایک دن قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو مس کنڈکٹ کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کا کہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام رجسٹرار سید احتشام علی کی جانب سے جاری نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد نے جج ارشد ملک کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور ان کی خدمات ان کے اصلی محکمہ لاہور ہائی کورٹ کے سپرد کی ہیں تاکہ ان کے خلاف ضابطے کے مطابق انضباطی کارروائی کی جا سکے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق جج ارشد ملک نے اپنی سات جولائی کی پریس ریلیز اور گیارہ جولائی کے بیان حلفی میں جو انکشافات اور اعترافات کیے ہیں وہ بادی النظر میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ضروری ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ جج ارشد ملک ویڈیو کیس کا فیصلہ جمعہ کو سنا رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو مس کنڈکٹ کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے منگل کو ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت میں اپنی رپورٹ میں تصدیق کی تھی کہ جج ارشد ملک اس سال العزیزیہ ریفرنس میں نیب عدالت کی طرف سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے کے بعد چھ اپریل کو سابق وزیراعظم سے ملنے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے اعتراف کیا کہ ایک جج کو ملزمان سے نہیں ملنا چاہیے مگر وہ بلیک میلنگ کے باعث میاں نواز شریف سے انکی رہائش گاہ پر ملے۔
ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں جج ارشد ملک سے سوالنامے کے ذریعے کی گئی تفتیش بھی شامل کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں  جج ارشد ملک نے تفتیشی ادارے کو بتایا کہ بلیک میلنگ کے ملزم میاں طارق سے ان کی ملتان میں صرف دو بار ملاقات ہوئی تھی جب وہ اپنا خراب ٹی وی ٹھیک کرانے کے لیے ان کے پاس گئے تھے ۔ ان کے مطابق ان دنوں وہ ملتان میں بطور ایڈیشنل سیشن جج تعینات تھے۔تاہم ارشد ملک کے مطابق جب انکی ملتان سے باہر  ٹرانسفر ہو گئی تو انہیں میاں طارق نے ایک ویڈیو کی بنیاد پر بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
سابق جج نے ایف آئی اے کو بتایا کہ جب وہ اپنا خراب ٹی وی واپس لینے گیا تو انہوں نے مجھے کچھ نشہ آور چیز کھلا کر میری ویڈیو بنا لی۔ تاہم ارشد ملک نے کہا کہ بلیک میلنگ کے بعد وہ بار بار میاں طارق کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے۔ تاہم ارشد ملک کے مطابق مریم نواز کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی انکی گفتگو پر مبنی ویڈیو اصلی نہیں بلکہ اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کیے گئے بیان میں جج ارشد ملک نے میاں نواز شریف سے انکی رہائش گاہ پر ملنے کا اعتراف کیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے جج ارشد ملک اور نوازشریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھائی تھی۔
مریم نواز نے الزام لگایا تھا ’سزا دینے والا جج خود بول اٹھا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور فیصلہ کیا نہیں صرف سنایا گیا ہے۔
جج ارشد ملک کا مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیو کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’مریم صفدر صاحبہ کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیوز نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے اور انہیں اپنے ادارے لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

شیئر: