Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نہر سوئز پر فرانسیسی مجسمے کا تنازع

فرانسیسی سفارتکار فرڈینینڈ نے نہر سوئز کی تعمیر کا آئیڈیا پیش کیا تھا۔ (فوٹو الشروق)
مصر میں نہر سوئز کی تعمیر کا خیال دینے والے فرانسیسی سفارتکار فرڈینینڈ ڈی لیسپس کے مجسمے کی بندرگاہ سعید پر دوبارہ تنصیب کے معاملے نے مصر میں تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس بحث مباحثے میں حصے لینے والے ہزاروں مصری شہریوں نے کہا ہے کہ اس سے نوآبادیاتی دور کی یاد تازہ ہو جائے گی۔
مصریوں کا کہنا ہے کہ اس مجسمے کی تنصیب ان کے لیے توہین آمیز ثابت ہو گی۔ 1860 کی دہائی میں اس آبی گزر گاہ کی تعمیر میں مصر کے ہزاروں مزدوروں نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا

واضح رہے کہ عربی روزنامہ الشروق میں گذشتہ ماہ یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ بحیرہ روم سے منسلک نہر سوئز پر بندرگاہ سعید کے علاقے میں فرانسیسی سفارت کار فرڈینینڈ  ڈی لیسپس کے مجسمے کی دوبارہ تنصیب کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
فرڈینینڈ ڈی لیسپس فرانس کی جانب سے قونصل کے طور پر 1833 میں قاہرہ آئے تھے اور بعد میں سکندریہ میں تعینات تھے۔
انہوں نے بحیرہ روم کو بحیرہ احمر سے ملانے کے لیے خیال پیش کیا تھا اور 1859 میں مصر میں نہر سوئز کی تعمیر پر عثمانی گورنر کو راضی کر لیا تھا۔

اس آبی گزرگاہ کی تعمیر میں 10 سال کا عرصہ لگ گیا تھا اور یہ راستہ 17 نومبر 1869 کو سرکاری طور کھول دیا گیا تھا۔
تیس سال بعد یادگار کے طور پر نومبر 1899 میں فرانسیسی مجسمہ ساز عمانوئل فریمیٹ کے ذریعہ فرڈینینڈ ڈی لیسپس کا 33 فٹ اونچا کانسی کا مجسمہ تیار کر کے  پورٹ سعید پر کھڑا کیا گیا تھا۔
یہ مجسمہ دائیں ہاتھ میں نہر سوئز کا نقشہ تھامے آنے والوں کا استقبال کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 1956 کی مشرق وسطیٰ میں جنگ کے دوران اس مجسمے کو مصری جنگجوؤں نے تباہ کر دیا تھا۔
اس وقت مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی جانب سے نہر سوئز کو قومی شناخت دی گئی تھی۔
روزنامہ الشروق کی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جدید تنصیب میں فرڈینینڈ ڈی لیسپس کے مجسمے کے ساتھ ایک اور مجسمہ نصب کیا جائے گا جس میں مصری کسان کو نہر کھودنے والے مزدوروں کی علامت دکھایا جائے گا

پورٹ سعید میں ایک مقامی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ مجسمے کی دوبارہ تنصیب سے قبل مزید ’عوامی بحث‘ کی ضرورت ہے۔
مصر کےایک وکیل مصطفیٰ بکری نے اس تجویز کی مذمت بھی کی ہے۔
الشروق کے کالم نگار عبداللہ الصناوی نے لکھا ہے کہ نہر سوئز کی تعمیر کے دوران جبری مزدوروں کی ہلاکت ’نسل پرستانہ جرم‘ ہے.​
ہزاروں مصری کسان اپنے آوزاروں کی مدد سے کم اجرت کے ساتھ نہر کی کھدائی پر لگائے گئے  اور ہزار وںافراد ہلاک ہوگئے تھے.

1956میں جمال عبدالناصر نے سوئز کنال کو ریاستی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تھا جسے مصر میں پسند کیا گیا تھا۔
اس کے جواب میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے جنگ کا آغاز کر دیا تھا لیکن امریکہ اور سوویت یونین کے ذریعے انخلا کا حکم دیا گیا جس کے بعد پوری دنیا میں ناصر اورعرب قوم پرستی کی تعریف کی گئی۔
دنیا کی تقریباً 10 فیصد تجارت اس آبی گزر گاہ سے کی جاتی ہے جو مصر کے لیے زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
2015 میں مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کی حکومت نے نہر کی مزید توسیع کی تاکہ گزرگاہ بڑے جہازوں کو گزرنے کا راستہ مل سکے۔

شیئر: