Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کو اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کو غزہ میں امداد فراہم کرنے کی اجازت دینا ہوگی: بین الاقوامی عدالت انصاف

بین الاقوامی عدالت انصاف  نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین برائے مشرق قریب  (UNRWA) کو غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے کی اجازت دے۔
ہیگ میں قائم اس عدالت سے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے درخواست کی تھی کہ وہ یہ طے کرے کہ اسرائیل کی قانونی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس وقت اسرائیل نے اس امدادی ادارے، جو غزہ میں امداد فراہم کرنے والا بنیادی ادارہ ہے، کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔
عدالت کے صدر، یو جی ایواساوا نے کہا کہ ’اسرائیل پر یہ لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور اس کے اداروں، بشمول UNRWA، کی جانب سے دی جانے والی امدادی سکیموں کو تسلیم کرے اور ان میں سہولت فراہم کرے۔‘
یہ مشاورتی رائے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی، جو 10 اکتوبر کو نافذ ہوئی، اب تک برقرار ہے۔
اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کی تردید کی ہے اور عدالت کی کارروائیوں کو متعصبانہ قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے اپریل میں ہونے والی سماعت میں شرکت نہیں کی، البتہ عدالت کے لیے 38 صفحات پر مشتمل تحریری مؤقف جمع کروایا تھا۔
اقوام متحدہ کی یہ ایجنسی جنوری سے غزہ میں مؤثر طریقے سے کام کرنے سے روک دی گئی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے دائیں بازو کے اتحادیوں نے اس ادارے پر حماس سے گہری وابستگی کا الزام لگایا ہے۔
تاہم، امدادی ایجنسی نے اس الزام کو مسترد کیا ہے، اور عدالت نے کہا کہ اسرائیل نے ان الزامات کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ غزہ کی آبادی کو ناکافی مقدار میں امداد دی گئی ہے اور اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ مقامی آبادی کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔

اسرائیل نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ملک کی سلامتی کے خدشات کو نظرانداز کیا۔ (فوٹو: اے پی)

اپریل کی سماعت کے دوران نیدرلینڈز میں فلسطینی سفیر، عمار حجازی نے عدالت کو بتایا کہ ’اسرائیل فلسطینیوں کو بھوکا مار رہا ہے، قتل کر رہا ہے، بے گھر کر رہا ہے، اور ان انسانی امدادی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے جو ان کی زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اپنے تحریری جواب میں، اسرائیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کو اقوام متحدہ کی درخواست مسترد کرنی چاہیے کیونکہ یہ دیگر مشاورتی آرا سے زیادہ مختلف نہیں، اور عدالت کے پاس حقائق معلوم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
گزشتہ سال عدالت نے کہا تھا کہ اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجودگی غیر قانونی ہے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ وہاں سے نکلے اور بستیوں کی تعمیر فوری بند کرے۔
اس فیصلے کے بعد کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مہم شروع کی۔
اسرائیل نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ملک کی سلامتی کے خدشات کو نظرانداز کیا۔
دو دہائیاں قبل بھی عدالت نے اسرائیل کے مغربی کنارے پر علیحدگی کے لیے بنائے گئے دیوار کو بین الاقوامی قانون کے خلاف قرار دیا تھا، جس پر بھی اسرائیل نے عدالت کا بائیکاٹ کیا تھا۔

بدھ کا مشاورتی بیان اُس الگ مقدمے سے مختلف ہے جو جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے تحت دائر کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اگرچہ مشاورتی آراء براہِ راست پابند نہیں ہوتیں، لیکن ان کی قانونی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
بدھ کا مشاورتی بیان اُس الگ مقدمے سے مختلف ہے جو جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے تحت دائر کیا ہے۔
اسرائیل نے ان الزامات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور جنوبی افریقہ پر حماس کا دفاع کرنے کا الزام لگایا ہے۔
گزشتہ سال ہیگ میں قائم ایک اور عدالت، بین الاقوامی فوجداری عدالت، نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع، یوآو گالانٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے انسانی امداد کو روک کر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی حکام نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی کہا ہے کہ ’اسرائیل کو شہری آبادی کو بھوکا مارنے کو بطور جنگی طریقہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘

شیئر: