Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت نیشنل بک فاؤنڈیشن کی نجکاری کیوں چاہتی ہے؟

ریڈرز کلب، شہر کتاب، موبائل لائبریری، بک میوزیم سمیت کئی دیگر منصوبے بھی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام جاری ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم اصلاحات کمیشن نے 45 قومی اداروں کو وفاقی وزارتوں کے دائرہ اختیار سے نکال کر سرمایہ پاکستان نامی کمپنی کے سپرد کرنے اور ان کی مرحلہ وار نجکاری کی سفارش کی ہے۔
 ان اداروں میں ملک میں کتب بینی کے فروغ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چھٹی کلاس سے بارہویں تک کی نصابی کتب چھاپنے والا ادارہ نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی شامل ہے۔
پاکستان میں کسی بھی ادارے کی نجکاری کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس کے لیے جن عوامل یا اصولوں کو سامنے رکھا جاتا ہے کہ وہ ادارہ حکومت پر بوجھ ہے، اپنے قیام کے مقاصد سے دور ہے یا مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔
مگر نیشنل بک فاؤنڈیشن کے حوالے سے حکومتی اعداد و شمار کو ہی سامنے رکھا جائے تو صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔
حکومت کی جانب سے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو سالانہ 18 کروڑ روپے بجٹ دیا جاتا ہے جبکہ ادارے کی جانب سے گذشتہ چھ سال میں 600 نئی کتابیں، لاکھوں کی تعداد میں نصابی کتب اور اسی طرح لاکھوں ہی کے حساب سے پرانی کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کیے گئے ہیں۔
قارئین کو نصف قیمت پر کتابوں کی فروخت کے باوجود ادارے نے 2018-19 میں 32 کروڑ روپے کی کتابیں بیچیں اور کم و بیش پانچ کروڑ روپے کمائے۔
ریڈرز کلب، شہر کتاب، موبائل لائبریری، بک میوزیم سمیت کئی دیگر منصوبے بھی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام جاری ہیں۔
اس صورت حال کے باوجود حکومت اس ادارے کی نجکاری کیوں چاہتی ہے اس حوالے سے اردو نیوز نے ادارے سے وابستہ حکام کے ساتھ رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت نیشنل بک فاؤنڈیشن کے 24 دفاتر ہیں اور یہ ادارہ اپنے ہم عصر دیگر اداروں جن میں اکیڈمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان یا قومی لغت بورڈ وغیرہ میں سب سے زیادہ اثاثوں کا مالک ہے۔

حکومت کی جانب سے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو سالانہ 18 کروڑ روپے بجٹ دیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

حکام کے مطابق نیشنل بک فاؤنڈیشن کے پاس کراچی میں 17 کنال زمین جبکہ اسلام آباد، کراچی، ملتان، پشاور اور کئی دیگر شہروں میں قائم دفاتر اپنی زمین اور عمارتوں میں قائم ہیں جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ حکومت کو واحد فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ اس زمین کے بیچنے سے ایک بڑی رقم قومی خزانے میں جمع ہوگی۔
اردو نیوز نے نجکاری کمیشن کی ترجمان ثمرین زہرہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت نجکاری کمیشن کے پاس نجکاری کے لیے صرف 18 ادارے موجود ہیں جن میں نیشنل بک فاؤنڈیشن شامل نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ نجکاری کمیشن کا کام ایک ایجنٹ کا سا ہے کہ حکومت متعلقہ وزارت کی جانب سے کسی ادارے کی نجکاری کی تجویز آنے پر کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کی منظوری کے بعد ہمیں کہتی ہے کہ فلاں ادارے کو بیچ دیں تو نجکاری کمیشن اس پر کام شروع کر دیتا ہے۔
تاہم وزارت تعلیم کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی نجکاری کی تجویز اصلاحات کمیشن نے دی ہے اور وہ اس وقت دوسرے مرحلے میں 28ویں نمبر پر ہے تاہم وزارت تعلیم خود بھی اس ادارے کی نجکاری نہیں چاہتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے نجکاری کمیشن میں جا کر اپنا مقدمہ لڑا ہے۔ وزارت نے بھی ہماری تجویز کی حمایت کی تھی کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی نجکاری نہیں ہونی چاہیے۔ بڑی مشکل سے وزیر نجکاری محمد میاں سومرو کو قائل کیا تھا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر عشرت حسین اس ادارے کی نجکاری چاہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس ادارے کا جواز نہیں ہے۔

1993 سے لے کر 2014 تک متعدد مرتبہ نجکاری کی تجویز سامنے آئی لیکن بوجوہ نجکاری نہ ہو سکی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ترجمان کے مطابق ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد پورے کر رہا ہے اور اگر آپ اس کے مقاصد بڑھانا چاہتے ہیں تو اصلاحات کرکے مینڈیٹ بڑھا دیں۔
اردو نیوز کو یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی نجکاری کی تجویز سامنے آئی ہو بلکہ 1993 سے لے کر 2014 تک متعدد مرتبہ نجکاری کی تجویز سامنے آئی لیکن بوجوہ نجکاری نہ ہو سکی۔
2014 میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نجکاری کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر موجود تھا تاہم اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی تاریخ و ورثہ عرفان صدیقی اور ادارے کے ڈی جی ممتاز شاعر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کوششوں سے اسے نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ 'نیشنل بک فاؤنڈیشن فیڈرل بورڈ کی درسی کتب کے علاوہ اوسطا روزانہ ایک کتاب چھاپ رہی تھی۔ ان اداروں کو بیچ دیں جو کام نہیں کر رہے لیکن نیشنل بک فاونڈیشن اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے تو اس کی نجکاری مناسب نہیں۔ نجی ادارے تو کتاب چھاپ ہی نہیں رہے۔ نجی پبلشر تو کہتے ہیں کتاب بکتی نہیں تو اسے شائع کیسے کریں۔'
انہوں نے کہا 'نیشنل بک فاؤنڈیشن پر سرکاری کوئی خرچہ نہیں ہو رہا۔ یہ خود کیفیل ادارہ ہے۔ کتاب کا شعبہ پی آئی اے، ریلوے یا دیگر اداروں کی طرح نفع کمانے والا ادارہ نہیں بلکہ کتب بینی اور علم کا فروغ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر حکومت سبسڈی بند کرنا چاہتی ہو تو وہ کر دے لیکن ادارے کی نجکاری نہ کرے ورنہ یہ ایک عام دکان بن کر رہ جائے گی۔'
دوسری جانب شاعر اور ادیب سمجھتے ہیں کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے ادارے یا ان کے اثاثے حکومتی خزانے میں پیسے جمع کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ان کا کام کتب کی اشاعت اور عوام کو سستی اور معیاری کتب فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ ایک بہتر قوم تشکیل پا سکے۔

ارئین کو نصف قیمت پر کتابوں کی فروخت کے باوجود ادارے نے 2018-19 میں 32 کروڑ روپے کی کتابیں بیچیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ممتاز شاعر اور ادیب افتخار عارف نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'اس ادارے کے قیام کا مقصد ہی یہی تھا کہ ارزاں قیمتوں پر ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو تجارتی پبلشر شائع نہیں کرتے۔ اس ادارے نے بچوں کے لیے بے پناہ کتابیں شائع کیں، ڈالرز اور پاؤنڈز میں ملنے والی کتابوں کو شائع کرکے اپنے قارئین کو سستی کتب فراہم کیں۔ اس کے علاوہ ریفرنس کتب کی بڑی تعداد بھی شائع ہوئی۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے اداروں کی بیلینس شیٹ نہیں دیکھی جاتی بلکہ ہمارے جیسے ملکوں میں لوگوں کو کتابیں پڑھنے پر قائل کرنے کے لیے سہولت فراہم کرنا پڑتی ہے۔ انڈیا، چین، ایران اور دیگر ممالک میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں۔ ایسے اداروں کی مالی منفعت نہیں دیکھی جاتی بلکہ قومی منفعت دیکھی جاتی ہے۔'
افتخار عارف نے کہا کہ 'اب بھی بہتر ہے کہ اس ادارے کو اس کے اغراض و مقاصد کے تحت چلایا جائے تاکہ نجکاری کی نوبت نہ آئے۔'
نوجوان نسل کے شاعر حارث خلیق حکومت کی اس تجویز پر خاصے نالاں نظر آتے ہیں۔ اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے ادارے کی نجکاری کی تجویز دینا ہی شرم کی بات ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی شائع کردہ بچوں کی کتابیں ہم نے بچپن میں پڑھی تھیں۔ اس ادارے نے قوم کی تعمیر میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں، بچوں کا انسائیکلوپیڈیا اور اس کے علاوہ ہزاروں کتابیں انہوں نے شائع کی ہیں۔ کتب بینی کے حوالے سے ادارے کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'بجائے اس کے کہ اس ادارے کو بیچا جائے حکومت کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ تجارتی لحاظ سے یہ ادارہ مزید پھلے پھولے اور حکومت سے بجٹ لینے کی اس کو ضرورت نہ پڑے۔ تاہم کسی بھی صورت میں اس ادارے کو سرکار کی ملکیت سے نکلنا نہیں چاہیے۔'

شیئر: