پشاور کے ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں چند روز قبل مدثر خان نامی ایک افغان بچے کو داخل کیا گیا جس کے والدین کو سفری دستاویزات نہ ہونے کی بنیاد پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی تھی۔
والدین نے مجبور ہو کر اپنا ایک ماہ کا بچہ افغان شہری عظمت خان کے حوالے کیا، جو بارڈر کراس کر کے پشاور لے آئے اور بچے کا علاج شروع کروا دیا۔
اس دوران متعلقہ افغان اور پاکستانی حکام کوشش کرتے رہے کہ مدثر خان کے والدین جلد از جلد اپنے بچے کے پاس پشاور پہنچ جائیں۔
مزید پڑھیں
والدین عظمت خان کو جانتے نہیں تھے لیکن بچے کی بیماری اس قدر سنگین تھی کہ انہیں اپنے ایک ماہ کے بیٹے کو مجبوراً اجنبی شخص کے حوالے کرنا پڑا۔
عظمت خان اپنے بھانجے مسلم خان کے ہمراہ بچے کو پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں لے گئے لیکن وہاں تسلی بخش علاج نہ ہونے پر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لانا پڑا۔
مسلم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ بچے کے والدین کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا اور ویزا نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ والدین دن میں کئی مرتبہ اپنے بچے کی خبر لینے کے لیے کال کرتے تھے اور ویڈیو کال پر بچے کو دیکھ کر روتے تھے۔
مسلم خان کا کہنا ہے کہ والدین کی عدم موجودگی میں انہوں نے بچے کی بھرپور تیماداری کی، ’لیکن ماں کی جگہ تو نہیں لے سکتا۔ میں بھی اس بچے کے لیے اجنبی تھا اور انسانیت کے ناطے بچے کی خدمت کی۔‘
سات دن انتظار کے بعد بچے کی والدہ کو اجازت مل گئی
شیر خوار بچے مدثر خان کی والدہ سات دن کے انتظار کے بعد جمعے کی دوپہر اپنے والد کے ہمراہ پاک افغان بارڈر طورخم کے ذریعے پشاور پہنچیں۔
مسلم خان نے بتایا کہ والدہ نے اپنے بچے کو دیکھ کر شکر ادا کیا اور اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں بیٹے کو ہمیشہ کے لیے کھو نہ دوں۔‘

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے کلینکل کوآرڈینیٹر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بچے کو دل کا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اُسے جھٹکے بھی لگتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شاہ کے مطابق بچہ پیڈز کے وارڈ میں زیرِعلاج ہے جہاں اُس کا مفت علاج ہو رہا ہے، تمام ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور ادویات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچے کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور ماہر امراضِ قلب کے مشورے کے بعد بچے کا باقاعدہ علاج شروع کیا جائے گا۔ بچے کے علاج کے ساتھ اُس کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے انتظامیہ تعاون کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر بچے کے لیے اپیل
