Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم متقی کیسے بنیں؟

متقی بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جائز چیزیں چھوڑدیں جن میں کوئی حرج نہیں، ان چیزوں سے بچنے کے لئے جن میں حرج ہے

 

 ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی ۔ ریاض

- - - - - - - -  --

اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں جو راستے کو روشن کرتی ہے اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔ تقویٰ سے متعلق دامادِ رسول حضرت علی ؓ کا ایک قول کتابوں میں مذکور ہے کہ تقویٰ دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، شریعت پر عمل کرنے، جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے۔

تقویٰ کی ایک تعریف، جو صحابی رسول حضرت ابی بن کعبؓ نے حضرت عمر فاروق ؓکے دریافت کرنے پر بیان فرمائی تھی، اس طرح ہے: حضرت ابی بن کعب ؓ نے اُن سے پوچھا: کیا آپ کبھی کانٹوں والے راستے پر نہیں چلے؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کیوں نہیں۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے پوچھا کہ اُس وقت تمہارا عمل کیا ہوتا ہے؟ حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ میں اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے کہا کہ بس یہی تقویٰ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعہ ہوتا ہے، جیساکہ نبی اکرم نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ (مسلم)

غرضیکہ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سینکڑوں آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔ تقویٰ سے متعلق تمام آیات کا ذکر کرنا اس وقت میں میرے لئے ممکن نہیں لیکن چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں: اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔ ( آل عمران102) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ ( الاحزاب 70) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ ( التوبہ119) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو۔ ( الحشر 18) تقویٰ کوئی ایسا عمل نہیں جو صرف اِس امت کے لئے خاص ہو بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ سے ڈر کر زندگی کے ایام گزارے، فرمان الٰہی ہے: ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کوبھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کی ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ ( النساء131)

خالق کائنات نے اپنے حبیب محمد مصطفی کو بھی تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ سورۃ الاحزاب آیت نمبرایک میں ارشاد باری ہے: اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہو۔ذلت کے نقشوں میں عزت دینے والے نے قرآن کریم میں اعلان کردیا کہ اس کے دربار میں مال ودولت اور جاہ ومنصب سے کوئی شخص عزیز نہیں بن سکتابلکہ اس کے ہاں عزت کا معیار صرف اللہ کا خوف ہے۔ جو جتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرکر یہ فانی دنیاوی زندگی گزارے گا، وہ اس کے دربار میں اتنا ہی زیادہ عزت پانے والا ہوگا، چنانچہ فرمان الٰہی ہے: درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ ( الحجرات13) عباداتی، معاملاتی اور معاشرتی زندگی میں 24 گھنٹے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آسان نہیں جبکہ شیطان، نفس اور معاشرہ ہمیں مخالف سمت لے جانے پر مصر رہتا ہے، چنانچہ رحمت الہی نے بندوں پر رحم فرماکر ارشاد فرمایا: جہاںتک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ ( التغابن 16) یعنی ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی کے لمحات گزارتا رہے۔

اگر کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً دل سے معافی مانگے، ان شاء اللہ اس کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گالیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم تقویٰ میں بھی ڈنڈی مارنا شروع کردیں، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران102) حج کے سفر کے دوران نیز عام زندگی میں ایک مسلمان دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے متعدد چیزوں سے آراستہ ہونا چاہتا ہے، فرمان الٰہی ہے : اور (حج کے سفر میں) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ ( البقرہ 197) یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف نہیں لیکن سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف ہے۔ سورۃ الطلاق آیت2 و3 میں رازق کائنات نے اعلان کردیا کہ تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے والا دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والا ہے: اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ نیز دوسرے مقام پر فرمایا: اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ تم سے دور کردے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ ( الانفال29) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقویٰ کے مختلف فوائد وثمرات ذکر فرمائے ہیں، چند حسب ذیل ہیں: ہدایت ملتی ہے ۔( البقرہ2)ایسا علم ملتا ہے جس کے ذریعہ حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ ( الانفال29) غم دور ہوجاتے ہیں اور وسیع رزق ملتا ہے۔ ( الطلاق2 و3) اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ ( النحل 128) اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے۔ (الجاثیہ 19) اللہ کی محبت ملتی ہے۔ ( التوبہ7) دنیاوی امور میں آسانی ہوتی ہے۔ ( الطلاق4) گناہوں کی معافی اور اجر عظیم کا حصول ہوتا ہے۔ ( الطلاق 8) نیک عمل کی قبولیت ہوتی ہے۔ (المائدہ27) کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ( آل عمران130) اللہ کی جانب سے خوشخبری ملتی ہے۔ (یونس 64) جہنم سے چھٹکارا مل جاتا ہے،جو انتہائی برا ٹھکانا ہے۔ ( مریم 71 و72) ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش یعنی جنت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت45) بے حیائی اور برائیوں سے رکنا ہی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اُن کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے اور دعا دے اُن کو۔ ( التوبہ103) زکوٰۃ کوئی ٹیکس نہیں جو مسلمان حکومت کو ادا کرتا ہے، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی امیر کا غریب پر کوئی احسان نہیں بلکہ جس طرح مریض کو اپنے بدن کی اصلاح کے لئے دوا کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہر مسلمان کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے حکم پر اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے اور یہ صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان مال جیسی مرغوب چیز کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور یہی خوفِ خدا تقویٰ کی بنیاد ہے۔ روزہ اُن اعمال میں سے ہے جو تقویٰ کے حصول میں مددگار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں روزہ کی فرضیت کی یہی حکمت بتائی ہے کہ روزہ سے انسان میں تقویٰ پیداہوتا ہے۔ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جائو۔ ( البقرہ 183) روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ یعنی اللہ کے خوف کی بنیاد ہے۔ سورۃ الحج کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی تعلیم سے کرکے قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کو بتادیا کہ حج کی ادائیگی کے لئے دنیا کے چپہ چپہ سے جم غفیر کا جمع ہونا قیامت کے دن کو یاد دلاتا ہے جہاں دودھ پلانے والی ماں اپنے اُس بچے تک کو بھول جائے گی جس کو اُس نے دودھ پلایا۔ غرضیکہ مناسک حج کی ادائیگی میں بھی یہ تعلیم ہے کہ ہم قیامت کے دن کی تیاری کریں اور ظاہر ہے یہ صرف دل میں اللہ کے خوف کی وجہ سے ہی ممکن ہے اور یہی تقویٰ ہے۔

ہم متقی کیسے بنیں؟ اس کاجواب بہت آسان ہے کہ متقیوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمائی ہیں، وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔24گھنٹے ،ہر لمحہ ہمارے دل ودماغ میں یہ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اور اسے ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے، خواہ ہم مسجد حرام میں بیت اللہ کے سامنے ہوں یا گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ، بازار میں گراہکوں کے ساتھ ہوں یا چوپال میں لوگوں کے ساتھ۔ دارالحدیث کی مسند پر بیٹھ کر بخاری جیسی حدیث کی مستند کتاب پڑھا رہے ہوں یا کسی کالج میں سائنس کی تعلیم دے رہے ہوں۔ مسجد کے محراب میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوں یا کسی یونیورسٹی میں حساب کی تعلیم حاصل کررہے ہوں۔

یہی دنیاوی زندگی، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا پہلا اور آخری موقع ہے، کسی بھی وقت موت کا فرشتہ ہماری روح ہمارے جسم سے جدا کرسکتا ہے۔ مرنے کے بعد خون کے آنسو کے سمندر بہانے کے بجائے ابھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی توبہ کرکے گناہوں سے بچیں اور قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی کے طریقہ پر اللہ کے حکموں کو بجالائیں۔ اگر ہم اس قیمتی موتی سے آراستہ ہوگئے تو سب سے زیادہ برے ٹھکانے سے محفوظ رہ کر خالق کائنات کے مہمان خانہ میں ہمیشہ ہمیشہ چین وسکون وراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے کہ جن کے متعلق ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والی ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ تقویٰ (پرہیزگاری) اور اچھے اخلاق ہے۔ پھر آپ سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جہنم میں لے جانے والی ہے؟ آپ نے فرمایا: منہ اور شرمگاہ۔ (ابن ماجہ) منہ سے مرادحرام مال کھانا، دوسروں کی غیبت کرنا، چھوٹ بولنا وغیرہ وغیرہ۔ شرمگاہ سے مراد زنا اور اس کے لوازمات۔ غرضیکہ عموماً تقویٰ 3 امور سے حاصل ہوتا ہے: احکام الٰہی پر عمل کرنا اور برائیوں سے بچنا۔ نبی کی سنتوں پر عمل کرنا اور مکروہ چیزوں سے اپنی حفاظت کرنا۔ شک وشبہ والے امور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور بعض جائز کاموں کو بھی ترک کرنا، جیساکہ فرمان رسول ہے: کوئی شخص اُس وقت تک متقیوں میں شامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ بعض جائز چیزیں نہ چھوڑدے جن میں کوئی حرج نہیں، ان چیزوں سے بچنے کے لئے جن میں حرج ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، حاکم ، بیہقی)

شیئر: