Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی والے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں

کراچی سمیت صوبہ سندھ کے 20 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سوشل میڈیا پر ندیم فاروق پراچہ کی ٹویٹ دیکھی تو خبر ہوئی کہ کراچی میں بجلی اور برقی قمقمے 1913 سے ہی آگئے تھے جبکہ ابھی امریکہ میں بھی مکمل بجلی 1920 کے لگ بھگ آئی۔
کراچی کے میئر رائے ہری چند کی تصویر اورخدمات بھی واٹس ایپ گروپس میں گردش کر رہی ہیں۔ ان معلومات کے حقیقت ہونے کے بارے میں تو وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بات ضرور ہے کہ بچپن سے ہی روشنیوں کے شہر کے طور پر کراچی کا ہی ذکر سنا۔ جب کراچی میں رہنے کا موقع ملا تو دیکھ بھی لیا کہ شہر میں کبھی روشنیاں مدھم نہیں ہوتیں اور کراچی کے باسی دن اور رات کا فرق کیے بغیر ہر دم رواں دواں رہتے ہیں۔  
کراچی میں مگر چار دنوں سے بجلی نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ بجلی نہیں ہے بلکہ سڑکیں نہریں بن چکی ہیں۔ آنا جانا محال اور عام کاروبار ہی نہیں بلکہ کاروبار زندگی بھی معطل ہے۔ 
بارش نے بھی ریکارڈ توڑے ہیں مگر بارش سے پہلے بھی عوامی سہولتوں کا ماتم ہی رہا ہے۔ نہ پانی اور نہ سیورج، نہ سڑکیں اور نہ ٹرانسپورٹ، نہ سرکاری ایمبولینس اور نہ فائر بریگیڈ۔ کیا کہا جائے فہرست بہت لمبی ہے۔ مگر قصور کس کا؟
صوبائی حکومت کی ذمہ داری سب سے پہلے سامنے آتی ہے۔ بارہ سال سے پیپلز پارٹی حکمران ہے، دس سال سے اٹھارہویں ترمیم کے بعد سینکڑوں ارب روپے ملے ہیں۔ وہ کہاں گئے کچھ خبر نہیں۔ اندرون سندھ سے ووٹ لینے والی پارٹی کی دلچسپی بھی وہیں ہے۔
ہاں مگر کراچی کے میونسپل اداروں کو صوبائی کنٹرول میں فوراً لے لیا جاتا ہے۔ اسی صوبائی حکومت کے سربراہ بارہ سال سے وزیر خزانہ بھی ہیں مگر یہ بتانے کو تیار نہیں کہ کراچی پر کچھ انڈر پاسز کے علاوہ کیا خرچ کیا؟ اور اگر خرچ کیا تو نظر کیوں نہیں آتا؟
زیادہ سوالوں سے صوبائی خود مختاری خطرے میں پڑ جاتی ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ وفاق سے پیسہ لینا تو ضروری ہے مگر نیچے خرچ کرنے کا نہ کوئی حساب ہے اور نہ کوئی ترتیب۔ کراچی کی زبوں حالی کی کچھ نہیں تو آدھے سے زیادہ ذمہ داری پیپلز پارٹی کی مجرمانہ غفلت، ارادتاً نظر اندازی اور انتقامی رویے کی وجہ سے ہے۔

کراچی میں 200 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی ’ووٹ دو اور ترقیاتی کام لو‘ کے ظالمانہ کھیل کی بھینٹ چڑھ گیا- 
کراچی سے ووٹ زیادہ ایم کیو ایم کو پڑتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے مارشل لا کی کڑی نگرانی میں کراچی میں بھی ترقیاتی کام ہوئے مگر 2008 کے بعد کراچی کے نقصان میں ایم کیو ایم بھی پیپلزپارٹی سے مقابلے میں رہی۔ ووٹ کا بدلہ ترقیاتی کاموں کے بجائے اس کا خراج وصول کر کے لندن بھیجا جاتا رہا اور بجائے ترقی میں حصہ داری کے راج رہا بھتہ خوری اور تشدد کا۔
کراچی جیسے شہر کو ایسی ترقی کی ضرورت ہے جس سے کاروبار بڑھے اور بلا شرکت غیرے سب کا معیار زندگی بلند ہو نہ کہ ہڑتالیں۔ تالا بندیاں اور احتجاج۔
پی ٹی آئی کی صورت میں کراچی نے دہائیوں بعد نئی جماعت پر اعتماد کیا۔ لسانی تعصبات سے بالاتر اور سب طبقات کی نمائندہ پی ٹی آئی ترقی کی امید بن سکتی تھی مگر اس کے بجائے کراچی کو ملے نعرے اور وعدے۔ دو سال بعد بھی صدر مملکت، گورنر۔ وزیروں اور درجن بھر ایم این ایز کے ساتھ پی ٹی آئی نے سوائے پیپلز پارٹی کو طعنے اور دھمکیاں دینے کے کچھ حاصل نہیں کیا۔
کے الیکٹرک، ریلوے اور سوئی گیس وفاق کو جواب دہ ہیں۔ ایک تہائی علاقہ بھی کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کے ذریعے بالواستہ وفاق کی عمل داری میں ہے اور اس سے پہلے وفاق کے منصوبے گرین لائن بس کی صورت میں چل بھی رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے پاس بہانے ہزار اور حل ندارد۔ اب دو سال بعد درخواست کی گئی ہے فوج اور این ڈی ایم اے سے۔

کراچی میں چار دن سے بجلی نہیں ہے اور سڑکیں نہریں بن چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی کی حکومت کو اس بات کا ادراک ضرور ہو گا، عسکری اداروں کی خدمات عارضی ہی ہوں گی اور اس کا کریڈٹ پی ٹی آئی کے حصے میں بہر حال نہیں آئے گا۔ 
وزیراعظم باتیں اچھی کرتے ہیں کہ کراچی جیسے بڑے شہر کا بجٹ کسی ملک کے بجٹ کی طرح علیحدہ ہونا چاہیے اور آمدنی اور خرچ شہر کے اپنے پاس ہوں مگر اس پر عمل کس طرح ہو گا اس کا کوئی پلان نہیں- ایک اور پیکج کا بھی ذکر ہے مگر کب اور کیسے اس کا بھی واضح جواب نہیں- 
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی تینوں سے مایوس کراچی کے شہری اب آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں، موجودہ بحران کے لیے بھی اور آگے بھی۔
یہ بارش تو آخر تھم جائے گی، روشنی بھی واپس آ جائے گی اور راستے بھی کھل جائیں گے مگر کچھ عرصے بعد ایک نیا بحران ہو گا۔ پھر لُو یا بارش، یا بیماری یا حادثہ، پھر دوبارہ الزامات کا تبادلہ اور زمین پر پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔
 روشنیوں کے شہر کے باسی اپنے لیے خود ہی رو دھو کر روشنی کا بندوبست کر کے رواں دواں ہوں گے اورانتظار کریں گے پھر کسی نئے مسیحا کا۔ 

شیئر: