Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین فلم کو بام عروج عطا کرنے والے محبوب خان

محبوب خان کی فملوں میں عورت کے جذبہ ایثار کے ساتھ اس کے سخت فیصلے لینے کی طاقت کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈین سینما کے عہد زریں کا شاید ہی کوئی ناظر ایسا ہوگا جسے معروف ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کا یہ شعر یاد نہ ہو:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
اور اس کے پشت میں ایک علامتی لوگو بھی لوگوں کی ذہن میں محفوظ ہوگا جس میں ’ہتھوڑا اور ہنسوا‘ نظر آتا ہے جو کہ انڈیا میں کمیونسٹ پارٹی کا نشان ہوا کرتا تھا۔
 
یہ انڈین سینیما کی اس منفرد شخصیت کا ایک پرتو ہے جس نے انڈین فلم کو بام عروج عطا کیا اور جو نو ستمبر 1907 میں گجرات کے گاؤں بلی موریا میں پیدا ہوا تھا۔ یعنی محبوب خان رمضان خان۔
انڈین سینیا کے معروف فلم ساز اور ہدایتکار محبوب خان آج ہوتے تو کس طرح کی فلمیں بناتے یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن اپنے زمانے میں تو وہ سماج کے سلگتے مسائل کو پیش کرتے رہے۔ ان میں کسانوں کے ساہوکاروں کے ہاتھوں استحصال، امیروں کے ہاتھوں غریبوں کے استحصال اور عورت کی سماجی حیثیت کو پیش کرنے کا جرآت مندانہ اقدام شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جب محبوب خان اپنے وطن سے ممبئی آئے تھے تو ان کی جیب میں صرف تین روپے تھے اور وہ اپنی مادری زبان گجراتی کے علاوہ دوسری زبان نہیں جانتے تھے۔ لیکن ان میں سخت موسم سے لڑنے والے کسانوں کی نہ شکست کھانے والی روح تھی جس نے انھیں ایک ایسی دنیا میں بام عروج پر پہنچا دیا جو بہت زیادہ مقابلے والی تھی۔
محبوب خان نے انڈیا کو پہلی رنگین فلم ’آن‘ دی جس میں دلیپ کمار کے ساتھ نادرہ، نمی اور پریم ناتھ اہم کردار میں نظر آتے ہیں۔

محبوب خان نے انڈیا کو پہلی رنگین فلم ’آن‘ دی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے 1939 میں ’عورت‘ فلم بنائی تھی جو اپنے زمانے میں بے حد مقبول ہوئی۔ لیکن شاید محبوب خان کو اس میں کوئی کمی محسوس ہوئی اسی لیے جب انھوں نے اپنی فلم ’کمپنی‘ اور اپنا سٹوڈیو ’محبوب سٹوڈیو قائم کیا تو ایک بار پھر سے اس پر کام کرنے کے لیے سوچنے لگے اور کہا جاتا ہے اداکارہ نرگس کے مشورے پر اس فلم کا نام ’مدر انڈیا‘ رکھا جسے انڈین سینما میں سنگ میل قرار دیا گیا اور اسے کئی گرانقدر ایوارڈز بھی دیے گئے۔
یہ انڈیا کی پہلی فلم تھی جسے آسکر میں یعنی اکیڈمی ایوارڈز میں غیرملکی زبانوں میں بننے والی فلم کے زمرے میں نامزدگی ملی۔ ہرچند کہ جیوری اس فلم کے تھیم اور تکنیک سے متاثر تھے لیکن اسے انعام کیوں نہ ملا اس کی بہت سے وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں لوگ جیوری کو یہ نہ بتا سکے کہ ہندوستانی عورت کے نزدیک اس کا سہاگ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔
محبوب خان بہت سے تضادات کا مجمعہ تھے۔ وہ اپنے زمانے سے بہت آگے کی سوچ رکھنے والے فلمسازوں میں سے تھے۔ انھوں نے اس وقت اینٹی ہیرو کا تصور پیش کیا جو کہ قابل قبول نہیں تھا۔
فلم ’امر‘ میں انھوں نے دلیپ کمار کا منفی کردار پیش کیا اور رومانٹک تھرلر ہونے کے باوجود وہ بہت زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ اس فلم میں انھوں نے دلیپ کمار کے ساتھ پہلی بار مدھوبالا اور نمی کو کاسٹ کیا۔
محبوب خان کی محبوب اداکاراؤں میں نرگس شامل تھی کیونکہ انھوں نے ہی چائلڈ آرٹسٹ نرگس کو بریک دیا تھا۔ جب انھوں نے 1943 میں نرگس کو فلم ’تقدیر‘ کے لیے کاسٹ کیا تھا تو ان کی عمر محض 14 سال تھی۔

فلم ’امر‘ میں محبوب خان نے دلیپ کمار کو منفی کردار میں پیش کیا (فوٹو: ٹوئٹر)

فلم ’امر‘ سے پہلے انھوں نے فلم ’انداز‘ میں دلیپ کمار کو اینٹی ہیرو کے کردار میں پیش کیا تھا۔ اس فلم میں نرگس دلیپ کمار کی محبت کے اظہار سے تنگ آ کر اسے گولی مار دیتی ہے۔ اسی طرح فلم ’مدر انڈیا میں نرگس تنگ آکر بہ حالت مجبوری اپنے پیارے بیٹے سنیل دت کو گولی مار دیتی ہے۔
محبوب خان کے یہاں عورت کے جذبہ ایثار و ہمدردی کے ساتھ اس کے سخت فیصلے لینے کی طاقت کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔
محبوب نے اپنے کیریئر کی ابتدا اردشیر ایرانی کے سٹوڈیو سے ایکسٹرا کی حیثیت سے کی اور کہا جاتا ہے کہ پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ میں وہ مرکزی کردار حاصل کرنے سے چوک گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ساگر موی ٹونز میں ملازمت اختیار کی جہاں وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔
انھوں نے ایک فلم سکرپٹ ’الہلال‘ لکھی جس پر فلم بنائی گئی۔ انگریزی میں اسے ’ججمنٹ آف اللہ‘ کا نام دیا گیا۔

محبوب خان نے تقریبا 25 فلموں کے لیے ہدایت کاری کی (فوٹو: ٹوئٹر)

 
ساگر مووی ٹونز کے مالک ’الہلال‘ کی سکرپٹ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے محبوب خان کو فلم کی ہدایت کی اجازت دے دی اور پھر محبوب خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
محبوب خان نے اس کے بعد تقریبا 25 فلموں کے لیے ہدایت کاری کی خدمات انجام دی جبکہ ان میں سے سات فلموں کو پروڈیوس بھی کیا۔ ان کی پروڈیوس کردہ فلموں میں ’مدر انڈیا‘، ’امر‘، ’آن‘، ’انوکھی ادا‘، ’اعلان‘، ’انمول گھڑی‘ وغیرہ شامل ہیں۔
محبوب خان انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے پسندیدہ فلم ساز تھے اور وہ نہرو کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ شاید نہرو کی وجہ سے ہی وہ پاکستان کی دعوت کے باوجود پاکستان جانے کے لیے راضی نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کا کہنا تھا کہ نہرو ہیں تو وہ ہیں۔

فلم سٹار نرگس محبوب خان کی  پسندیدہ ترین اداکاراؤں میں سے تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

کسی کو ان کی بات پر یقین ہو یا نہ ہو لیکن ان کی موت بتاتی ہے کہ وہ اپنے قول میں سچے تھے کیونکہ جس دن نہرو کا انتقال ہوا اس کے دوسرے ہی دن یعنی چند گھنٹوں کے اندر محبوب نے بھی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
ان کے صد صالہ یوم پیدائش کے موقع پر 2007 میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا جن میں ان کی تصویر کے پس پشت ’مدر انڈیا کے ایک پوسٹر کی تصویر بھی شامل ہے۔

شیئر: