Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈبلیو ٹی او کا چین کے حق میں فیصلہ، امریکہ برہم کیوں؟

امریکہ کے مطابق دو سال قبل چینی اشیا پر دو سو ارب ڈالر کا ٹیرف جائز تھا (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی ادارہ تجارت کا کہنا ہے کہ امریکہ نے چین پر طے شدہ ریٹ سے زیادہ ٹیرف عائد کر کے عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جس پر امریکہ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ تجارت نے کہا ہے امریکہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے دوران چین پر اربوں ڈالر کے ٹیرف عائد کر کے عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دو سال قبل چینی اشیا پر دو سو ارب ڈالر کا ٹیرف جائز تھا کیونکہ چین نے امریکی کمپنیوں کی چینی مارکیٹس میں رسائی کے لیے ٹیکنالوجی منتقل کرنے پر مبجور کیا تھا۔
تاہم عالمی ادارہ تجارت کے تین رکنی پینل کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صرف چین پر عائد کردہ ٹیرف نے تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ وہ امیرکہ کی جانب سے طے شدہ ریٹ سے زیادہ تھے۔
پینل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اُس وقت اس بات کی مکمل وضاحت نہیں کی تھی کہ یہ اقدام کیوں کیے گئے تھے۔
امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لگتھائیزر نے عالمی تجارتی ادارے کی رپورٹ کے جواب میں کہا ہے کہ، 'پینل کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے جو ٹرمپ انتظامیہ چار سال سے کہہ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی ادارہ تجارت چین کے ٹیکنالوجی سے متعلق نقصان دہ سرگرمیوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکافی ہے۔'
چین کی وزارت تجارت کا کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کثیرالجہتی تجارتی نظام کی حمایت کرتی ہے اور عالمی تجارتی ادارے کے قوانین اور احکامات کا احترام کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ امریکی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی۔

ممکن ہے کہ امریکی حکومت عالمی ادارہ تجارت کے فیصلے پر عدالت سے رجوع کرے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم روئٹرز کے مطابق اس فیصلے سے امریکہ کے عائد کردہ ٹیرف پر کم ہی فوری اثر پڑے گا اور یہ ایک قانونی عمل کی شروعات ہے جو سالوں تک چل سکتا ہے اور جس کے نتیجے میں عالمی ادارہ صحت جوابی اقدامات کی منظوری دے سکتا ہے۔ لیکن چین نے پہلے سے ہی یہ اقدامات کر لیے ہیں۔
ممکن ہے کہ امریکی حکومت عالمی ادارہ تجارت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کو لے کر عدالت سے رجوع کرے جس سے یہ معاملہ غیر معینہ مدت تک کے لیے قانونی کارروائیوں میں داخل ہوجائے گا کیونکہ امریکہ نے عالمی ادارہ تجارت کی قانونی باڈی میں ججز کی تقرری روک رکھی ہے جس کی وجہ سے کیسز کی سماعت کے لیے ججز کی جو تعداد ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔ 
عالمی ادارہ تجارت کے پینل ارکان کو علم تھا کہ ایسا کرنے سے وہ ایک مشکل صورتحال میں قدم رکھ رہے ہیں۔ پینل کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی اقدامات کو مدِ نظر رکھا تھا اور چین کی جوابی کارروائی کو نہیں، جس کو امریکی حکومت نے عالمی ادارہ صحت میں چیلنج نہیں کیا ہے۔ 
پینل نے تجویز کی ہے کہ امریکہ اپنے اقدامات کو اپنی ذمہ داریوں کے مطابق بنائے اور پینل کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو اپنے تنازع کو مجموعی طور پر حل کرنا چاہیے۔

 امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کو ’خوفناک‘ اور ’معتصب‘ قرار دیا ہے (فوٹو اے ایف پی)

بیجنگ کے ساتھ دو سالہ تجارتی جنگ کے دوران، رواں سال جنوری میں تجارتی معاہدے کے 'فیز 1' پر دستخط کرنے سے قبل، صدر ٹرمپ نے تقریباً تمام چینی درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی تھی، جو کہ پانچ سو ارب ڈالر سے زائد تھی۔
امریکی کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 370 ارب ڈالر مالیت کی چینی اشیا پر اب بھی اضافی ٹیرف عائد ہیں اور جولائی 2018 سے 62.16 ارب ڈالر کے ٹیرف جمع کر لیے گئے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کو ’خوفناک‘ اور ’معتصب‘ قرار دیا ہے اور وہ اکثر عالمی ادارے سے اپنی رکنیت ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے لیے وائٹ ہاؤس سے نکلتے وقت ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں 'عالمی ادارہ تجارت کا کچھ کرنا ہوگا کیونکہ انہوں نے چین کو قتل کے باوجود جانے دیا۔'
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں عالمی ادارہ صحت کے فیصلے کو غور سے دیکھنا ہوگا، تاہم یہ بھی کہا کہ 'میں عالمی ادارہ صحت کا مداح نہیں، یہ میں آپ کو ابھی بتا سکتا ہوں۔ ہو سکتا ہے انہوں نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔'

’ ٹرمپ انتظامیہ کو عالمی ادارہ صحت کو متروک قرار دینے کی وجوہات ملیں گی۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

امریکہ کی سابق تجارتی نمائندہ مارگریٹ سیکوٹا کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے فیصلے سے ممکن ہے کہ ٹرمپ کے ادارے کو چھوڑنے کے فیصلے کو بڑھاوا ملے یا امریکہ کے ادارے کی اصلاحات سے متعلق دلائل کو سہارا ملے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ٹرمپ انتظامیہ کو عالمی ادارہ صحت کو متروک قرار دینے کی وجوہات ملیں گی اور وہ سوال کرے گی کہ اگر وہ ذہنی املاک کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے تو ان کی معیشت کو آگے لے جانے میں کیا پوزیشن ہوگی۔
کثیر الجہتی اداروں سے متعلق شکوک رکھنے والے صدر ٹرمپ نے پہلے ہی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت (یونیسکو) کی رکنیت چھوڑ دی ہے اور عالمی ادارہ صحت کو چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شیئر: