Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں بھی کیوی کی پیداوار

نیوزی لینڈ اور چین کا قومی پھل ’کیوی فروٹ‘ وٹامنز کا ایک  بڑا ذریعہ ہے اور دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان  میں اس کا استعمال کم ہوتا ہے لیکن اس پھل کی تجارتی اہمیت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اب حکومت اس کو تجرباتی بنیادوں پر کاشت کر کے  پیداوار کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
بنیادی تجربے میں کامیابی کے بعد اب اس پھل کو کمرشل سطح پر بھی کاشت کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔  
پاکستان میں ’کیوی‘ کی کاشت کے متعلق تحقیق کا آغاز سال 2014 میں کیا گیا جب پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے نیپال سے چند پودے درآمد کیے اور ان کو اسلام آباد، چکوال اور مانسہرہ میں قائم زرعی تحقیقی  مراکز میں لگایا گیا۔ 
ابتدائی طور پر اس کی پیداوار کے متوقع نتائج حاصل نہیں ہوئے اور اسلام آباد اور چکوال میں یہ تجربہ ناکام رہا۔ البتہ ضلع مانسہرہ کے علاقے میں کیا جانے والا تجربہ کامیاب رہا  جس کے بعد اس علاقے میں مزید کیوی پھل کاشت کرنے کا سوچا گیا۔

 

اس وقت مانسہرہ میں ابتدائی طور پر لگائے گئے پودے بہت زیادہ پھل دے رہے ہیں جس کے بعد یہاں پر ’کیوی‘ کو کمرشل سطح پر کاشت کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔  
اس منصوبے پر کام  کرنے والے سینیئر زرعی سائنسدان ڈاکٹر نور اللہ  کے مطابق اب تک سالانہ ایک پودے سے تقریبا 42 کلو پھل حاصل کیا گیا ہے جو بین الااقوامی اوسط سے کافی زیادہ ہے۔
’بین الااقوامی طور پر ایک پودے سے 35 سے 36 کلو گرام تک پھل حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے پودے بھی ہیں جن سے 66 کلو گرام تک پھل حاصل کیا گیا۔ پچھلے سال تقریبا 400 کلو سے زائد پیداوار حاصل کی تھی جس میں سے زیادہ تر فروخت کیا گیا اور کچھ سے بیج حاصل کیا ہے۔‘  
ڈاکٹر نور اللہ کے خیال میں ایک ایکڑ کے باغ سے سالانہ 8 سے 12 لاکھ روپے تک کی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔  ور آئندہ چند سالوں میں پاکستان میں’کیوی‘ کی کاشت کا رجحان بڑھے گا۔

ضلع مانسہرہ میں کیوی پھل کی کاشت کا ابتدائی منصوبہ کامیاب ہو گیا۔ فوٹو: اردو نیوز

’اس سلسلے میں ہم نے اب تک سو مقامی کاشکاروں کو ٹریننگ دی ہے اور 7-8 باغات بھی تیار کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ایک ایکڑ زمین پر کیوی کے تقریبا 120 پودے لگائے جا سکتے ہیں اور اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔‘ 
ڈاکٹر نوراللہ نے بتایا کہ پاکستان میں ’کیوی‘ کی کاشت کے لیے ہزارہ ڈویژن، سوات، کشمیر اور خیبر پختونخوا کے کچھ قبائلی اضلاع کو موزوں سمجھا جاتا ہے۔
’کیوی کی کاشت ان علاقوں میں ممکن ہے جہاں درجہ حرارت معتدل ہو۔ کیوی کی کاشت کے لیے 22 سے 28 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت موزوں سمجھا جاتا ہے جبکہ 35 ڈگری سنٹی گریڈ تک کا درجہ حرارت یہ پودے برداشت کر سکتے ہیں لیکن ہمارے تجربے میں یہ آیا ہے  کہ 42 ڈگری سنٹی گریڈ تک درجہ حرارت بھی یہ پودا برداشت کر لیتا ہے اگر زمین کی ساخت اس کے لیے موزوں ہو اور پانی روزانہ کی بنیاد پر دیا جاتا رہے۔‘  

کمرشل پیداوار کے لیے ضلع مانسہرہ میں آٹھ باغات لگائے گئے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

کیوی کی پیداوار کا موسم

کیوی کی کاشت فروری کے آغاز میں کی جاتی ہے جبکہ تین سے چار سال بعد پیداوار شروع ہو جاتی ہے اور پودا اوسط 40 سال تک پیداوار دیتا ہے۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے ۔  
ڈاکٹر نور اللہ کے مطابق پاکستان  کےجن علاقوں میں کیوی کی کاشت  ہو رہی ہے جیسے کہ ہزارہ ڈویژن یا سوات وغیرہ ، ان علاقوں میں جون، جولائی کے بعد تیار ہونے والے دیگر پھل زیادہ کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ اس کے بعد کیڑے مکوڑوں کے حملے اور سپرے وغیرہ کرنا پڑتا ہے لیکن کیوی کے پھل کا چھلکا سخت ہوتا ہے اس لیے اس کو کسی قسم کے کیڑے کا بھی ڈر نہیں ہوتا نہ ہی سپرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پھل جلدی خراب نہیں ہوتا ۔ 40 سے 50 روز تک اسے روم ٹمریچر میں رکھا جا سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی کمرشل ویلیو زیادہ ہے۔ 

پاکستان میں ’چینی ورائٹی‘ کی کاشت 

ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں 2017 میں کیوی کی کاشت کے حوالے سےایک نئے پراجیکٹ کے آغاز کے بعد چین سے کیوی کی مختلف ورائیٹیز کو متعارف کروایا گیا اور انہیں مقامی سطح پر ضلع بٹگرام اور ضلع مانسہرہ کے کچھ علاقوں میں کاشت کیا گیا۔ اس کے نتائج میں سامنے آیا کہ چین کی ورائٹی پاکستان کے موسم کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے۔  

ایک ایکڑ زمین پر کیوی کے تقریبا 120 پودے لگائے جا سکتے ہیں. فوٹو: اردو نیوز

ڈاکٹر نوراللہ  کا کہنا ہے کہ ’چین سے ہم نے 800 روپے کے حساب سے فی پودا درآمد کیا، اب ہم ان کی سکریننگ کر رہے ہیں تاکہ ان  پوودوں کی نرسریز بڑھائی جائیں اور جن علاقوں میں جو ورائٹیز موزوں ہوں وہ مقامی کاشتکاروں کو دی جائیں تاکہ اس پھل کو کمرشل سطح پر کاشت کیا جائے۔  چین سے در آمد کی جانے والے پودے اب ہم اپنی نرسریز میں تیار کر رہے ہیں پہلے ہم نے ایک پراجیکٹ میں مقامی کاشتکاروں کو مفت پودے دیے اب مقامی کاشتکاروں کو سو روپے فی پودے کے حساب سے بیچ رہے ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ کیوی کو کمرشل سطح پر لے جانے کے لیے اب تک 8 باغات قائم کیے جا چکے ہیں جہاں کاشتکاروں کو پودے لگا کر دیے گئے ہیں اور ان کی مزید کاشت اور دیکھ بھال کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں