Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’طالبان کی حکومت میرے لیے خوفناک خواب کی طرح ہے‘

کابل میں خواتین کے لیے پہلا یوگا سنٹر جولائی 2020 میں کھولا گیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
بین الافغان مذاکرات کی ممکنہ کامیابی کے بعد افغان شہریوں کی طالبان کے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کے حوالے سے تشویش میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان کے شہریوں کا خیال ہے کہ طالبان کی اسلامی حکوت ختم ہونے کے انیس سال بعد بھی ان کے طور طریقوں میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔
دارالحکومت کابل کی 26 سالہ رہائشی نے طالبان کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وہ اپنے اور اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے خوفزدہ ہیں۔
کتایون احمدی کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کی حکوت ایک خوفناک خواب کے طور پر یاد ہے جب معمولی جرائم کی سزا میں ہاتھ یا انگلیاں کاٹ دی جاتی تھیں اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد جنگ بندی کی توقع تو کی جا رہی ہے لیکن طالبان نے خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کے حوالے سے خاطر خواہ یقین دہانی نہیں کروائی۔
کابل کے 35 سالہ رہائشی فرزاد فرنود کا کہنا تھا کہ گزشتہ 18 سال کے عرصے میں افغان حکومت نے وہ تمام کامیابیاں حاصل کی ہیں جو اس سے قبل طالبان کے دور میں موجود نہیں تھیں۔
کابل میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیٹک سٹدیز میں بطور محقق کام کرنے والے فرزاد فرنود کا کہنا تھا کہ امن معاہدے کے بعد طالبان کی جانب سے پرتشدد واقعات میں تیزی آئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔

طالبان نے خواتین کے حقوق کے پر خاطر خواہ یقین دہانیاں نہیں کروائیں۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے طالبان دور کے واقعات دہراتے ہوئے کہا کہ وہ بھی کابل کے فٹبال سٹیدیم میں خواتین کو کوڑے مارنے کے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔
فرزاد فرنود نے بتایا کہ ان کی فیملی کو اپنے بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن کا اینٹینا درخت میں چھپانا پڑا تھا جب طالبان نے کسی بھی قسم کے تفریحی مواد دیکھنے یا سننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
سابق طالبان جنگجو ضیا الرحمان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو لڑکیوں کی تعلیم یا خواتین کے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہیں حجاب پہننا ہوگا۔
امریکہ کے افغانستان سے انخلا پر افغان شہریوں کو نہ صرف سیکیورٹی بلکہ معاشی مستقبل کے حوالے سے بھی خدشات کا سامنا ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: