Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش: گارمنٹس انڈسٹری کورونا سے متاثر

بنگلہ دیش دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملبوسات تیار کرنے والا ملک ہے(فوٹو عرب نیوز)
بنگلہ دیش کی ایک گارمنٹس فیکٹری کے مالک شاہد اللہ عظیم نے کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد اپنے 20 فیصد کارکنوں کو بر طرف  کیا ہے۔  وہ  اب یورپ اور امریکہ میں کورونا کی دوسری لہر کو’ایک بڑے بحران‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
شاہد اللہ عظیم اکیلے نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش، چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملبوسات تیار کرنے والا ملک ہے تاہم اس انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ریلیٹرز یا تو آرڈر دینے سے گریز کر رہے ہیں، خریداری کے فیصلوں میں تاخیر کر رہے ہیں یا قیمتوں میں کٹوتی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 

بین الاقوامی ریٹیلرز جن میں ایچ اینڈ ایم اور جی اے پی شامل ہیں کو گارمنٹس سپلائی کرنے والے صدیق الرحمن نے کہا  ’یہ تباہی ہے، ہم صرف زندہ رہنے کے لیے آرڈر لے رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’ ہم نے توقع کی تھی کہ کرسمس سے پہلے آرڈرز مل سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
صدیق الرحمن نے کہا صارفین قیمتوں میں 15 فیصد سے زیادہ کی کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی وصولی انتہائی مشکل ہے۔
جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں بنگلہ دیش کی ملبوسات کی برآمدات مجموعی طور پر 27.94 بلین ڈالر رہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 18 فیصد کم ہیں۔
جولائی تا ستمبر سہ ماہی میں ایک فیصد سے بھی کم کی کمی واقع ہوئی تھی جس کی وجہ سے نٹ ویئرآئٹمز کی مانگ میں اضافہ ہوا تھا جو بنگلہ دیشی گارمنٹس کی کل برآمدات کا نصف حصہ ہے۔
بنگلہ دیش نٹ ویئر مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر سلیم عثمان نے کہا  کہ ٹی شرٹس اور سویٹر جیسی بناوٹ کی مصنوعات تیار کرنے والی تقریباً نصف فیکٹریوں کا کھلا رہنا مشکل ہو رہا ہے۔

کورونا کی دوسری لہر بحالی میں مزید تاخیر کر سکتی ہے۔

سلیم عثمان کا کہنا تھا ’دوسری لہر بحالی میں مزید تاخیر کر سکتی ہے۔‘
بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے مطابق کم اجرت نے بنگلہ دیش کو گارمنٹس کی صنعت کو بنانے میں مدد فراہم کی ہے جس میں تقریبا 4000 فیکٹریوں نے 40 لاکھ مزدوروں کو ملازمت پر رکھا ہے۔  تیار شدہ ملبوسات معیشت کا سب سے اہم مقام ہیں جس نے ملک کے جی ڈی پی میں تقریباً 16 فیصد حصہ ڈالا ہے۔
بنگلہ دیش میں ایک فیکٹری کے مالک عظیم جو یورپی اور شمالی امریکہ کے پرچون فروشوں کو گارمنٹس سپلائی کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ انہیں پانچ میں سے ایک ملازمت میں کمی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا ’بیشتر فیکٹریوں کا معاملہ یہی ہے۔اب دوسری لہر شروع ہوگئی ہے ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیےمستقبل میں کیا  رکھا ہے۔‘

فیکٹری کو مزید آرڈر ملیں تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔

ماہرین کو خوف ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک کو خود بھی سردیوں کے دوران انفیکشن میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اب تک 390206 واقعات کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 5681 اموات شامل ہیں۔
یونین رہنماؤں کے مطابق جولائی کے بعد سے اب تک 10 لاکھ کی ایک تہائی کارکنوں کو دوبارہ سے بحال کیا گیا ہے۔
لیکن بہت سے ورکرز اوور ٹائم تنخواہ کے بغیر جدوجہد کر رہے ہیں جو اکثر ان کی ماہانہ آمدنی کا 20 فیصد ہوتا ہے۔
دارالحکومت ڈھاکا کے مضافات میں غازی پور میں کام کرنے والی بنیسا بیگم نے بتایا کہ’اوورٹائم کے بغیر اخراجات پورے کرنا بہت مشکل ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ میں صرف دعا کرتی ہوں کہ میری فیکٹری کو مزید آرڈر ملیں تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔

شیئر: