Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا: بنگلہ دیشی شہریوں کے بہتر مستقبل کے خواب 'چکنا چُور'

خلیجی ممالک میں کام کرنے والے کئی مزدوروں کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے (فوٹو روئٹرز)
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مشتاق احمد رواں سال فروری میں سعودی عرب میں نوکری ملنے کے بعد وہاں کے لیے روانہ ہونے والے تھے لیکن اب چھ ماہ بعد وہ اس رقم کو چکانے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہوں نے اس مقصد کے لیے ادھار لی تھی۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بدھ کو بنگلہ دیش کے ضلع منشی گنج کے رہائشی نے بتایا  کہ 'میں نے چار ہزار ڈالر کی رقم ایک مقامی ادارے سے سود پر لی تھی اور صفائی کی نوکری کے لیے سعودی عرب جانے کو تیار تھا لیکن اب میں کچھ بھی کمائے بغیر ادھار کی قسطیں ادا کر رہا ہوں۔'
احمد نے بتایا کہ 'مجھے رشتہ داروں سے رقم ادھار لینا پڑی، مجھے نہیں معلوم کہ میں کب تک اس طرح گزارا کر سکوں گا۔'
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا نے ان کے دوسرے ملک میں بہتر مستقبل کے 'خواب چکنا چوُر' کردیے ہیں اور بنگلہ دیش میں انہیں بے روزگار چھوڑ دیا ہے۔
مشتاق احمد کا شمار ان ایک لاکھ کے قریب بنگلہ دیشیوں میں ہوتا ہے جو وبا اور اس کی وجہ سے کئی ممالک میں لگائی جانے والی سفری پابندی کی وجہ سے مستقبل کی غیر یقینی کا شکار ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں کام کرنے والے کئی مزدوروں کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔

کورونا کے بعد کئی بنگلہ دیشی شہریوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے (فوٹو شٹر سٹاک)

بنگلہ دیش کی مین پاور ایمپلائمنٹ اینڈ ٹریننگ اتھارٹی کے مطابق رواں سال جنوری سے مارچ کے درمیان بنگلہ دیش نے کئی ممالک میں ایک لاکھ 80 ہزار شہری بھیجے تھے جن میں سے ایک لاکھ 30 ہزار سعودی عرب گئے تھے، جہاں زیادہ تر بنگلہ دیشی جانا پسند کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش چھوڑ کر دوسرے ممالک میں کام ڈھونڈنے والے کئی افراد کا کہنا تھا کہ انہوں نے یا تو اپنی جائیداد بیچ دی ہے یا رقم اُدھار لے کردوسرے ممالک میں کام تلاش کیا ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ دوسرے مالک میں نوکری ملنے کے بعد یہ قرض چُکا دیں گے۔
ضلع نواخالی کے رہائشی عبدالحنان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی آبائی زمین کا آخری حصہ پانچ ہزار ڈالر میں بیچ کر متحدہ عرب امارات میں نوکری حاصل کی۔
'میری فلائٹ اپریل کے پہلے ہفتے کی تھی لیکن اب کچھ پتا نہیں کہ کیا ہوگا کیونکہ میرے آجر نے کاروبار ٹھیک سے نہ چلنے کی وجہ سے کچھ ہفتے اور گھر پر رہنے کے لیے کہا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ امارات نہ جا سکے تو انہیں نہیں پتا کہ آگے کیا ہوگا تاہم اس مشکل میں وہ اکیلے نہیں۔

  رواں سال بنگلہ دیش نے ایک لاکھ سے زائد افراد دیگر ممالک میں بھیجے (فوٹو اے ایف پی)

بنگلہ دیش ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ریکروٹنگ ایجنسیز کے جنرل سیکرٹری شمیم احمد کا کہنا ہے کہ 85 ہزار سے زیادہ افراد ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کئی بہت مشکل میں ہیں کیونکہ انہوں نے قرض پر سفر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم لی اور اب وہ لمبے عرصے تک اس کو ادا نہیں کر سکتے۔
ان کا ماننا ہے کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ایسے افراد کا مالی دباؤ کم کرنے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔

شیئر: