Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سمندر میں غوطے کھانے سے پاکستان میں رہنا ہی بہتر ہے‘

پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کے دوران سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے اور پکڑے جانے کے کئی واقعات ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کی بڑی تعداد یورپ جانے کے لیے غیر قانونی رستہ اپناتی ہے۔
زیادہ پیسے کمانے اور بہتر معیار زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے ہر سال کئی نوجوان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
 
پاکستان کے ضلع گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں سعود شریف کے 80 سالہ حاجی محمد دین ایسے گھرانے کے سربراہ ہیں جس نے متحدہ عرب امارات سے کمائی کرکے زندگی کے سکھ بھی حاصل کیے ہیں۔ ساتھ ہی یورپ جانے کی بھیڑ چال ان سے ایک جواں سال بیٹا بھی چھین کر لے گئی۔
حاجی محمد دین کے دو بیٹے دبئی میں محنت مزدوری کرکے گھر کا نظام مناسب طریقے سے چلا رہے تھے۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا لیکن دولت کی ریل پیل نہ تھی۔ ارد گرد کے دیہات سے نوجوان دھڑا دھڑ یورپ جا رہے تھے اور علاقے میں بڑی بڑی کوٹھیاں، کاریں اور دولت بڑھتی دکھائی دے رہی تھی۔
اپنے اور دوستوں کے درمیان بڑھتی اس سماجی تفریق کو کم کرنے کے لیے آج سے 16 سال قبل ان کے منجھلے بیٹے محمد افضال نے یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔
گھر والوں کے منع کرنے کے باجود انھوں نے اپنے دوستوں کے ذریعے ان کو قائل کر لیا۔
گھر سے روانہ ہونے کے بعد کچھ دنوں تک کسی ذریعے سے اس کا گھر سے رابطہ رہا لیکن کچھ دنوں بعد یہ رابطہ منقطع ہوگیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانی بڑھنے لگی تو گھر والوں نے تلاش شروع کی۔ ہر طریقے سے اس کا پتہ چلانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ بالآخر والدین نے ایک ایسی خبر پر صبر کر لیا جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں۔

بیٹے کی جدائی میں حاجی محمد اتنے غمگین ہیں کہ ذہنی حالت متاثر ہوچکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں حاجی محمد دین نے بتایا کہ ’کہتے ہیں کہ مراکش میں سمندر سے میرے بیٹے کی لاش ملنے کے بعد دفنا دی گئی تھی لیکن نہ اس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی قانونی دستاویز ہے۔‘
بیٹے کی جدائی میں حاجی محمد اتنے غمگین ہیں کہ ذہنی حالت متاثر ہوچکی ہے۔ ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ ان کے بیٹے کو گئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مرغی کا بچہ بھی گم ہوجائے تو لوگ اس کو بھی ڈھونڈتے ہیں میرا تو بیٹا تھا۔ میں نے ہر طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ایک دو ملکوں کا سفر بھی کیا۔ لیکن اب ذہنی حالت ایسی ہے کہ بتا بھی نہیں سکتا کہ کیا کیا کوششیں کیں۔‘
حاجی محمد دین کہتے ہیں کہ ’ہر بچے کا اپنا مقام ہوتا ہے۔ میرے بچے کمائیاں ضرور کر رہے ہیں لیکن جو میرے دل کی خواہش ہے وہ پوری نہیں ہوتی۔ اب میری زبان سے بعض اوقات ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ویسے تو جس نے ایجنٹ کے ساتھ جانا ہو وہ کسی کی بات نہیں مانتا لیکن میرے خیال میں انسان کو لالچ نہیں کرنا چاہیے۔ قانونی طریقے سے موقع ملے تو جانا چاہیے نہ ملے تو نہیں جانا چاہیے۔ لیکن لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں اسی وجہ سے نوجوان اپنے والدین کو قائل بھی کر لیتے ہیں۔ میرے بچے نے بھی میرے ساتھ یہی کیا تھا۔‘
دوسری جانب حاجی محمد دین کے دو بیٹے دبئی میں نہ صرف مقیم ہیں بلکہ انھوں نے اپنے بچوں کو بھی ویزے لے کر دبئی بلا لیا۔ ان میں سے ایک کے صاحبزادے اور حاجی محمد دین کے پوتے زاہد مشتاق ان دنوں پاکستان میں موجود ہیں۔

’اپنے بچے گنوانے کے بجائے کم کھا لینا بہتر ہے۔' (فوٹو: جوڈی ہلٹن)

اردو نیوز سے گفتگو میں کرتے ہوئے زاہد مشتاق نے کہا کہ ’میں وزٹ پر دبئی گیا تھا۔ اپنے والد چچا کو کام کرتے دیکھا تو ذہن بنایا کہ یہ جگہ حلال کمانے کے لیے بہتر ہے۔ بجائے اس کے کہ سمندروں میں غوطے کھائیں اور ہماری لاشیں بھی کیڑے مکوڑے کھا جائیں۔ جیسا کہ ہمارے خاندان میں ہمارے چاچو کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آ چکا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دبئی میں ہمارے پاس آٹھ مشینیں ہیں۔ اپنی گاڑیاں اور ڈیرے داری ہے۔ یہاں پاکستان میں گاوں کے ارد گرد ڈیڑھ مربع زمین خریدی ہے۔ یہ بھی کروڑوں کی جائیداد ہے۔ٗ‘
زاہد مشتاق نے کہا کہ ’ایجنٹوں کے پاس پھنسنے، سمندروں میں غوطے کھانے سے دبئی یا کسی بھی ملک میں قانونی طریقے سے جانا بہتر ہے۔ اپنے بچے گنوانے کے بجائے کم کھا لینا بہتر ہے۔‘
پاکستان سے بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں جانے کے لیے پاکستانیوں کی اکثریت اگرچہ خلیجی ممالک کا انتخاب کرتی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں کے اعداد شمار دیکھے جائیں تو ترسیلات زر میں بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں مقیم پاکستانی سب سے آگے رہتے ہیں۔
بیرون ملک روزگار کے قانونی مواقع ہونے کے بجائے لوگ غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟
اس حوالے سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ ’بیرون ملک میں روزگار کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے والوں کی اکثریت قانونی طریقوں اور ملازمتوں کے مواقع کے بارے میں لاعلم ہوتی ہے۔ اس کم علمی کے نتیجے میں وہ انسانی سمگلنگ، جبری مشقت اور دیگر پرتشدد کاروائیوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔‘

گذشتہ 10 برس میں 200 پاکستانی یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

آئی ایل او حکام کا کہنا ہے کہ ’بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کو ایجنٹوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو دیگر ملکوں میں بہتر روزگار کے مواقع، ترقی اور ملازمین کے حقوق کے بارے میں آگاہی دے کر قانونی مائیگریشن کی ترغیب دی جائے۔ اگر ورکر کو بیرون ملک کام کے دوران اپنے حقوق سے آگاہی ہوگی تو وہ نہ صرف میزبان ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکے گا بلکہ اپنے خاندان اور ملک کے لیے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیج سکے گا۔‘
دوسری جانب ایف آئی اے کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
تاہم ایک اندازے کے مطابق سالانہ لاکھوں نوجوان غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی منزل یورپ کے ممالک یونان، اٹلی، اسپین، فرانس اور  جرمنی ہوتے ہیں۔ جب خود سیٹل ہو جائیں تو پھر بیوی بچوں کو بلانے اور برطانیہ جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ 10 برس میں 200 پاکستانی یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ سالانہ اوسطا 80 ہزار پاکستانی ڈی پورٹ ہوتے ہیں۔ صرف 2012 سے لے کر 2019 تک سات لاکھ سے زائد پاکستانی ڈی پورٹ ہوئے تھے۔
پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے 2018 میں سابقہ حکومت نے انسداد سمگلنگ اور انسداد ٹریفکنگ بل 2018 منظور کروائے۔

ایف آئی اے نے انسداد انسانی سمگلنگ سیل بھی تشکیل دے رکھا ہے (فوٹو: روئٹرز)

ایف آئی اے نے انسداد انسانی سمگلنگ سیل بھی تشکیل دے رکھا ہے جو پورے ملک میں سرکلز قائم کرکے کارروائیاں کر رہا ہے۔
اس کے برعکس گزشتہ سال چھ لاکھ 25 ہزار 203 پاکستانی قانونی طریقے سے روزگار کے سلسلہ میں بیرون ملک گئے جبکہ رواں سال کے پہلے نو ماہ میں ایک لاکھ 79 ہزار 487 پاکستانی ہی بیرون ملک گئے۔
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام کے مطابق رواں سال بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد میں کمی کی وجہ کورونا کے باعث لاک ڈاؤن اور سفری پابندیاں ہیں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: