Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باہمی عزت و احترام، دنیا کا حقیقی حُسن

 
 شاید ہم بھول چکے ہیں کہ محبت ، ایثار ، خلوص کس شے کا نام ہے
 
عنبرین فیض احمد ۔ ریاض
 
ماضی قریب کی ہی بات لگتی ہے جب دنیانے اتنی ترقی نہیں کی تھی، اسے اتنی آگہی نہیں تھی۔باہمی خلوص و ایثار صاف دکھائی دیتا تھا لیکن جیسے جیسے ہم نے ترقی کی، اپنا سکھ چین کھو بیٹھے۔ اپنائیت کا احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔ آج انسان کی عزتِ نفس ، توقیرذات اور انسانی احترام کے رویوں کے پیمانے تبدیل ہوچکے ہیں۔خلوص ، سچائی ، انسانی ہمدردی ، مساوات کی جگہ فریب ، حرص ، حسد اور خود غرضی نے لے لی ہے۔ انسانوں کا احترام تو نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ اگر ہم کسی کو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھیں گے تو ہمیں بھی جواب میں ویسی ہی عزت و احترام کے لائق سمجھا جائے گا۔ فطری طور پر ہر انسان خواہ وہ امیر ہو یا غریب، اپنے آپ کو احترام کے لائق تصور کرتا ہے لیکن افسوس ہم صرف اپنے ہم پلہ لوگوں کو عزت و احترام کے لائق گردانتے ہیں حالانکہ ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے ، کوئی بھی اس عزت نفس کو مجروح ہوتا نہیںدیکھ سکتا۔ کوئی بھی انسان اپنی ذات کی نفی نہیں چاہتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم جس کو چاہتے ہیں ،اس کی بے عزتی کردیتے ہیں ۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہمیں اس کی ذات کی نفی نہیں کرنی چاہئے۔
آج جس کے پاس دولت ہو،پیسہ ہو، بڑی بڑی گاڑیاں ہوں، آگے پیچھے گن مین ہوں وہی ہماری نظر میں معتبر اور عزت و تکریم کے لائق ہوتا ہے لیکن غریب عورت جو ہمارے گھروںمیں کام کرتی ہے ،اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ہم اس کی کتنی بری طرح بے عزتی کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے اس رویے پر ذرہ برابر بھی پشیمانی نہیں ہوتی ۔ کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا یا کبھی یہ سوچنا گوارا کیا کہ اس کی بھی کوئی عزتِ نفس ہوتی ہے؟افسوس کہ ہمیں اتنی سوچ بچار کی فرصت ہی کہاں ہے ۔دولت تو آنی جانی شے ہے۔ اس لئے کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ کیا خبر کب کس کی کایہ پلٹ جائے ، برا وقت آتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ 
اس دنیا میں آنے والا ہرشخص پیار ،محبت کی زبان سمجھتا ہے خواہ آپ کی نظر میں وہ کتنا ہی جاہل ، گنوارکیوں نہ ہو۔ ہمیں دوسروں کے وقار کا خیال رکھنا چاہئے۔آج اگرہم دوسروں کی بے عزتی کریں گے تو کل نہ جانے زندگی کے کس موڑ پر دوسرے ہماری بے عزتی کردیں گے۔ہمارے معاشرے کاالمیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو نصیحتیں اور تلقین کرتے نہیں تھکتے اور خود ان نصائح پر عمل نہیں کرتے۔
دیکھا جائے تو ایثار و قربانی اورباہمی عزت و احترام میں ہی دنیا کا حقیقی حُسن ہے لیکن اس نفسانفسی کے دور میں جہاں ہر دوسرا فرد مفاد پرستی کے جال میں پھنسا ہوا ہے، اس نے ایک روگ کی شکل اختیار کرلی ہے ایسے میں دوسروں کےلئے خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرنا ایک انہونی سے بات لگتی ہے۔آج ہر انسان اپنی الجھنوں کو سلجھاتے سلجھاتے خود غرضی میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔
ہمیں یہ عہد کرلینا چاہئے کہ جہاں موقع ملے گا، اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرورت مندوں کی ضروریات کو حل کرنے کی کوشش ضرورکریں گے ۔اگر ہم ایسا کرنا شروع کر دیں تویقین جانئے، دنیا ہی بدل جائے گی ۔ زندگی میں سکون ہی سکون ہوگا اور سب سے بڑھ کر پیار و محبتوں کی حکمرانی ہوگی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے نہ صرف دوسروں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ ہم بھی اس عمل سے مستفید ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق رضاکارانہ طور پر کسی کی مدد کرنا انسان کا انسان سے رابطہ بڑھاتا ہے ۔ اس سے جسم میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں جو ذہنی دباﺅکم ہوجاتا ہے۔اسی لئے دیکھا گیا ہے کہ دوسروں کا دکھ درد رکھنے والے ہمدرد لوگ ذہنی طور پر زیادہ پر سکون اور صحت مند رہتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ دوسروں کے کام آنے سے انسان کی روح کو سکون ملتا ہے۔ 
اکثر ہم اپنی ہی دولت کے نشے میں چور رہتے ہیں،اپنی ذات کے خول میں بند رہتے ہیں۔ یوںہماری سوچ کی سوئی ہمارے گرد گھومتی رہتی ہے ۔ ہم یں سوچنا چاہئے کہ جو غریب محنت کش چند پیسوں کے لئے ہمارے گھروںپر کام کرتے ہیں وہ کتنے ضرورت مند ہوتے ہیں حالانکہ وہ رات دن اپنی مہارت اور محنت کے بل بوتے پرہمیں بے شمار فائدے پہنچاتے ہیں۔ جن کی بدولت ہماری زندگیاں شاہانہ انداز میں بسر ہوتی ہےں۔ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ سڑک کے چوراستے پر کھڑاٹریفک پولیس اہلکار سارا سار ادن لوگوں کے لئے راستہ بناتا ہے لیکن ہم اسے صرف برا بھلا ہی کہتے ہیں کیونکہ شاید ہم بھول چکے ہیں کہ محبت ، ایثار ، خلوص کس شے کا نام ہے کیونکہ ہمارا پیمانہ تبدیل ہوچکا ہے ، انسان دوستی اور انسانیت کا احترام اب ہم فراموش کرچکے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: