Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'معاہدہ معاملہ رفع دفع کرنےکے مترادف'

معاہدے کے مطابق کہ پاکستان فرانس میں اپنا سفیر تعینات نہیں کرے گا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اسلام آباد فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت کی جانب سے دیا گیا دھرنا ختم کرانے کے لیے پیر کی رات کو ایک معاہدہ کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان دو سے تین ماہ میں پارلیمنٹ میں فیصلہ سازی کے ذریعے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دے گی۔ 
سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہاتھ سے لکھے اس معاہدے پر حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور وفاقی مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی کے دستخط موجود ہیں۔ 
وزارت مذہبی امور کے ترجمان عمران صدیقی نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس معاہدے کے حقیقی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مذاکراتی کمیٹی نے جاری کیا ہے اور اس پر وزراء ہی کے دستخط ہیں۔ یعنی یہ معاہدہ جعلی نہیں ہے۔ 
اس معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ پاکستان بھی فرانس میں اپنا سفیر تعینات نہیں کرے گا اور سرکاری سطح پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ 
پاکستان میں عموماً سیاسی و مذہبی جماعتیں یا پھر دیگر تنظیمیں احتجاجی مظاہرے کرتی اور دھرنے دیتی رہتی ہیں۔ انتظامیہ ان کے مطالبات حکومت تک پہنچانے کا وعدہ کرکے احتجاج اور دھرنے ختم کروا دیتی ہے۔
جنوری 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری مہینوں میں عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے ملک میں احتجاج کی ایک نئی روایت ڈالی اور یوں مظاہرین اور حکومت کے درمیان تحریری معاہدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
وہ ایک بڑے احتجاجی جلوس کے ساتھ ڈی چوک پہنچے اور وہاں پر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت کی حکومت کا خیال تھا کہ سخت موسم کے باعث شرکاء ایک رات کے بعد خود ہی منتشر ہو جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔
چار و ناچار حکومت نے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ مذاکراتی کمیٹی پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم، سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، فاروق نائیک، مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین، ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار اور رکن اسمبلی بابر غوری، اے این پی کے سینیٹر افراسیاب خٹک اور فاٹا سے سینیٹر عباس آفریدی پر مشتمل تھے۔
مذاکرات کے نتیجے میں چند ماہ کی مہمان حکومت نے طاہر القادری سے مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کرنے، انتخابی امیدواروں کی 62، 63 کے تحت سخت چھانٹی، نگران حکومت کے قیام سمیت کئی دیگر امور پر اتفاق کیا اور بظاہر ایک ناقابل عمل معاہدہ طے پا گیا۔ 
بعد ازاں اس معاہدے کی روشنی میں حکومت اور عوامی تحریک کے درمیان چند ایک اجلاس تو ہوئے لیکن اتفاق کیے گئے کسی ایک نکتے پر بھی عمل در آمد نہ ہوسکا۔ 

’اس وقت طاہر القادری واپسی کے لیے فیس سیونگ چاہتے تھے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس مذاکراتی کمیٹی میں شامل سینیٹر افراسیاب خٹک نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'اس وقت بھی اور آج بھی فریقین نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت مقاصد حاصل کیے۔
’معاہدے راضی ہونے کے معنی میں نہیں ہیں۔ اس وقت طاہر القادری واپسی کے لیے فیس سیونگ چاہتے تھے، یہ بھی چاہتے تھے ان کو پہچان بھی ملے اور پھر ان پر یا ان کے کسی رہنما یا ورکر پر کوئی مقدمہ نہ چلے۔ انھوں نے اپنے مطالبات سامنے رکھے اور چل دیے۔
انھوں نے کہا کہ 'موجودہ مظاہرین جنھوں نے فیض آباد کو بند کر رکھا تھا ان کے بظاہر مقاصد کچھ اور ہیں جبکہ ان ہینڈلرز کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔ اصل مقصد پی ڈی ایم کی تحریک اور گلگت بلتستان انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے توجہ ہٹانا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بھی جو کچھ کیا ہے اس پر کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ منوا لیا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ 'اس طرح کے معاہدے کرتے وقت حکومتوں کے ذہن میں عمل در آمد کرنے کا کوئی خیال یا ارادہ نہیں ہوتا بلکہ واحد مقصد ان کو اٹھانا اور معاملہ رفع دفع کرنا ہوتا جو کہ اس وقت اور اب بھی حکومت نے حاصل کیا ہے۔

’حکومت نے سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ تسلیم کرکے قانون کی بالادستی کو دفن کر دیا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

افراسیاب خٹک نے کہا کہ 'موجودہ حکومت نے مظاہرین کی جانب سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ تسلیم کر کے معاہدے میں شامل کر کے غلط کیا ہے۔ اس طرح کی چیزیں ایسے گروہوں کو دوبارہ مظاہروں کے ذریعے ایسے مطالبات منوانے کی طاقت دیتی ہیں جو ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتے۔'
دوسری جانب سابق سفارت کاروں نے اس معاہدے میں حکومت کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں سابق سفارت کار آصف درانی نے کہا کہ 'کسی بھی ملک کے سفیر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ حکومت وقت کا ہوتا ہے۔ ایسے فیصلے پارلیمان سے نہیں کرائے جاتے۔ خارجہ پالیسی بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوئی بہت بڑی بات ہو جائے تو معاملہ پارلیمنٹ میں لے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'اس وقت ہم پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ غلط پالیسی ہوگی۔ حکومت نے سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ تسلیم کرکے قانون کی بالادستی کو دفن کر دیا ہے۔ اسی کو کمزور حکومت اور کمزور گورننس کہتے ہیں۔

’اسلامی کانفرنس تنظیم کی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق سفارت کار ایاز وزیر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'سفیر کو واپس بھیجا جا سکتا ہے لیکن پھر یہ یہاں تک محدود نہیں ہوتا۔ حکومت کو یہ چاہیے کہ وہ سوچے کہ کیا وہ فرانس سے اپنے سفارتی اور معاشی تعلقات منقطع کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ اور اس کے بعد جو بھی نتائج نکلیں گے اس کا سامنا کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانس میں جو کچھ ہوا اس سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں لیکن دنیا میں پاکستان اکیلا اسلامی ملک نہیں ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کی سطح پر مل کر حکمت عملی طے کرنے اور مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔
ایاز وزیر نے کہا کہ ' ملکی معاملات ایسے نہیں چلائے جاتے کہ ایک فرد یا گروہ مطالبہ کرے اور حکومت کہے کہ بالکل ٹھیک ہے۔ میرا نہیں خیال کہ حکومت اس معاہدے پر عمل در آمد کرے گی۔ ہاں اگر ہم نے دنیا کے سفارتی معاملات کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرنے کی ٹھان لی ہو تو وہ الگ بات ہے۔

شیئر: