Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھینس چوری سے بٹ کڑاہی تک: ن لیگ پر تاریخ کے سب سے زیادہ مقدمات

ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ کے مطابق ن لیگ کے خلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پر نہیں ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
سیاسی درجہ حرارت کا لفظ خبروں میں اتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے کہ شاید یہ اپنی دلچسپی بھی کھو رہا ہے۔ اس لفظ کو عام طور پر سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف دھواں دار بیانات اور سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔
لیکن پاکستان میں حالیہ سیاسی صورتحال کے دوران سیاسی درجہ حرارت کو ماپنے کے لیے ایک ایسا پیمانہ بھی ہے جو پہلے موجود تو تھا لیکن بے اثر تھا۔ 
نیا پیمانہ ہے سیاسی مخالفین پر فوجداری مقدمات کا اندراج اور یہ پیمانہ متعارف کروانے کا سہرا جاتا ہے تحریک انصاف کی حکومت کو۔
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری مقدموں کی تفصیل کے مطابق صرف لاہور جلسے سے پہلے اور بعد میں پولیس نے مسلم لیگ ن کی قیادت اور کارکنوں پر پانچ دنوں میں 24 مقدمے درج کیے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حکومت سے اس سے زیادہ کیا توقع کی جا سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک فاشسٹ حکومت ہے سیاسی مقدمے ہوتے رہتے ہیں یہ ایک سیاسی معمول ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں، لیکن اس حکومت نے تمام حدیں عبور کر دی ہیں یہ اس سے ڈبل مقدمے بھی درج کر لیں تو ہمیں پروا نہیں ہم اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر چکے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اب یہ حکومت مزید چل نہیں سکتی۔‘
لاہور پولیس کے ایک مرکزی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مریم نواز کی نیب پیشی سے اب تک لاہور میں درج ہونے والے کُل مقدمات کی تعداد 28 ہو چکی ہے اور اس میں  476 افراد نامزد ہیں جب کہ 3900 نامعلوم ہیں اور مریم سمیت تقریبا تمام لیگی قیادت ان مقدموں میں نامزد ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ حالیہ مقدموں سے پہلے لاہور میں کل چار مقدمات تھے البتہ خواجہ عمران نذیر کے علاوہ کوئی بڑی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی وہ بھی ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے، فیصل آباد اور کراچی میں مزار قائد والے معاملے کو بھی اگر شامل کیا جائے تو مسلم لیگ ن پر اس وقت 48 مقدمات ہیں۔ 

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ایک فاشسٹ حکومت ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

لاہور میں ایکسپریس نیوز کے سینئیر کرائم رپورٹر مشرف شاہ جو گزشتہ 20 سال سے جرائم اور پولیس سے متعلق رپورٹنگ کر رہے ہیں، کا ماننا ہے کہ لاہور کی تاریخ میں ایک خاص عرصے کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت پر اتنے مقدمے نہیں ہوئے۔
’مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں نے مشرف کا دور بھی دیکھا ہے پکر دھکڑ بہت ہوئی نظر بندیاں ہوئیں لیکن کسی ایک جماعت کی قیادت پر اتنے مقدمے اتنے مختصر وقت میں درج نہیں ہوئے۔‘
ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ سمجھتی ہیں کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر نہیں ہیں۔
’یہ سیاسی نہیں بلکہ قانونی معاملہ ہے اگر خلاف قانون کوئی کام ہو گا تو قانون لازمی حرکت میں آئے گا۔ ان بے بنیاد الزامات کا اس کے علاوہ جواب کیا ہوسکتا ہے کہ اگر یہ مقدمے سیاسی ہوتے تو اب تک مقدموں میں نامزد افراد کو گرفتار نہ کر لیا گیا ہوتا؟ یہ مقدمے ریاستی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے درج کیے گئے ہیں۔ کہ جو بھی قانون کو پامال کرے گا قانون اس پر اپنا راستہ لے گا، اس سے زیادہ اس کا کوئی جواب نہیں۔‘

بھینس چوری سے بٹ کڑاہی تک:

پاکستان میں سیاسی مقدمات بظاہر کوئی نئی بات نہیں اور ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر مقدمات درج کرتی رہی ہیں۔ اور بعض اوقات تو ان مقدمات کی نوعیت اتنی دلچسپ ہو جاتی ہے کہ وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تاریخ میں ایسا ہی ایک مقدمہ ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی پر درج کروا تھا جس میں ایک بھینس چوری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ 

مسلم لیگ ن پر درج ہونے والے مقدمات میں زیادہ تر الزامات کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کے درج کیے گئے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

خود ذوالفقار علی بھٹو پر جو مقدمہ چلا وہ بھی پاکستانی عدالتیں ایک نظیر کے طور پر استعمال نہیں کرتیں۔ نواز شریف طیارہ ہائی جیک کا مقدمہ بھگتا اس میں سزا بھی پائی۔
اضلاع کی سطح پر سیاسی مخالفین پر پانی چوری سے لے کر سائیکل چوری کے مقدمات پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ 
موجودہ دور حکومت بھی اس حوالے سے مختلف ثابت نہیں ہوا۔ لاہور جلسے سے قبل جلسے کے لیے ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والے ڈی جے بٹ پر اونچی آواز میں گانے سننے کا مقدمہ درج کیا گیا اور مریم نواز کی لکشمی میں ریلی کے دوران بٹ کڑاہی پر کھانا کھانے کی وجہ سے بٹ کڑاہی والوں پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 
مسلم لیگ ن پر درج ہونے والے مقدمات میں زیادہ تر الزامات کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے، کار سرکار میں مداخلت اور توڑ پھوڑ کرنے کے درج کیے گئے ہیں البتہ گوجرانولہ اورشاہدرہ میں درج ایف آئی آروں میں نواز شریف کی تقاریر پر غداری کے دفعات بھی لگائے گئے بعد ازاں ان مقدمات سے دیگر قیادت کا نام ہٹا دیا گیا۔

شیئر: