سعودی ڈیزائنر صالحہ الشھرانیی مملکت میں فیشن کے حوالے سے ایک مضبوط اور بااثر قوت ہیں جو اپنے کام کے ذریعے سعودی عرب کے جنوب کے نفیس اور قیمتی کلچرکو پھر سے متعارف کروا رہی ہیں۔
ان کا تعلق پہاڑی علاقے عسیر سے ہے اور انھوں نے مقامی روایات کے بل بوتے پر اپنے لیے ایک خاص تخلیقی راستے کا انتخاب کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی فیشن میں قدیم روایتی ہنر اور جدید تخلیق ایک ساتھNode ID: 886099
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے صالحہ الشھرانی نے کہا ’مملکت کے جنوبی حصے سے تعلق ہی قدرتی طور پر ان کی شناخت کو آگے بڑھاتا ہے۔‘
ڈیزائنر کا عسیر سے گہرا رشتہ ہی وہ سبب ہے جس نے انھیں روایتی لباس کو نیا رنگ دینے پر آمادہ کیا اور انھوں نے ایسے ڈیزائن تخلیق کیے جو ان کی وطن کی مستند نمائندگی بھی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے طبقے میں مقبول بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’میں رنگوں اور دیگر مواد کا استعمال کر کے جدید دور اور مستند ہونے کو باہم ملا دیتی ہوں لیکن جنوبی لباس کی اصل روح پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔‘
ان کی تخلیق کے مجموعے کی بنیاد عسیری لباس ہے جسے ’المزند‘ یا ’المجنب‘ بھی کہتے ہیں ۔ یہ لباس کا ایسا حصہ ہے جو مملکت میں یومِ تاسیس سمیت دیگر مواقع پر خوشی منانے کی شناخت کی علامت ہے۔

صالحہ الشھرانی کو خاص طور مخمل کے ساتھ کام کرنے میں لطف آتا ہے اگرچہ وہ کئی طرح کے کپڑے استعمال میں لاتی ہیں جو عسیر میں پائی جانے والی مختلف آب و ہوا کی نمائندگی کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان کے ڈیزائن کو قدرتی لینڈ سکیپ سے تحریک ملتی ہے جیسے جبلِ الاخضر، عسیر کا جبل الجنوب اور ابہا کے سروات کے پہاڑ۔‘
انہوں نے جبلِ ظھیرہ سے تحریک پا کر بنائے جانے والے اپنے مشہور ڈیزائن ’الاخضر‘ کا خاص طور پر ذکر کیا اور بتایا یہ ان کے لباسوں کی کلیکشن کی خاص شناخت بن چکا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بین الاقوامی نمائشوں میں ان کی شرکت کا ردِ عمل مثبت ہے اور ان کے ڈیزائنوں کی تعریف دور دور تک پھیلی ہوئی ہے جسے دنیا بھر میں ہر طرح کے صارفین اپنا بھی رہے ہیں۔‘

اس تجربے سے ان کے اس یقین کو مزید تقویت ملی ہے کہ سعوی عرب کی ثقافتی میراث میں بھرپور فنکارانہ قدر پائی جاتی ہے، خاص طور پر جب اسے عصرِ حاضر کو نگاہ میں رکھ کر تخلیق کیا جائے اور پیشہ ورانہ نفاست کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا جائے۔
انہوں نے سعودی وژن 2030 کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’ اس کے باعث بہت سی رکاوٹیں دُور ہوئی ہیں اور بالخصوص خواتین کو بااختیار بنایا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ’ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی بین الاقوامی نمائشوں کو مکمل طور پر تعاون مہیا کیا جائے جو سعودی عرب کی ثقافتی شناخت کو عالمی سطح پر فروغ دیتی ہیں۔‘
ایک پیغام میں انھوں نے ابھرتے ہوئے ڈیزائنرز پر زور دیا کہ وہ رسم و رِیت کی راہ سے ہٹیں، نقل سے گریز کریں اور اپنے تخلیقی راستے خود بنائیں۔ ان کے بقول عالمی سطح پر کامیابی، مقامی محاسن کو غور وفکر اور حسنِ تدبیر سے کام میں لانے سے شروع ہوتی ہے۔
ان کی خواہش ہے کہ وہ دنیا کے کسی بڑے دارالحکومت میں بوتیک شروع کریں جہاں وہ سعودی عرب کی جنوبی میراث کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں۔