Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیزا بھی کھائیں گے، قانون واپس بھی کروائیں گے

پیزا کھانے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوتے ہی کسانوں پر تنقید شروع ہو گئی۔ فوٹو ٹوئٹر
بھائی آپ مانیں یا نہ مانیں کسان پیزا کھا رہے ہیں۔ کھانے پر مجبور ہیں یا مکئی کی روٹی اور سرسوں کے ساگ سے بور ہوگئے ہیں، یا پھر انہیں لگتا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کے بہانے بیوی کے کھانے سے کافی عرصے کے بعد چھٹی ملی ہے تو کیوں نہ منہ کا ذائقہ ہی بدل لیا جائے، یا شاید اس پریشر میں ہیں کہ شہر آئے ہیں تو شہری کھانے ہی کھانے چاہئیں۔
وجہ جو بھی ہو وہ دلی کی سرحدوں پر دسمبر کی سرد راتوں میں پیزا کھاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں، اور تب سے یہ تصویریں وائرل ہوگئی ہیں۔
اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ یہ نیٹیزین کیا بلا ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ نیٹ ایک ملک ہے جس کی جغرافیائی سرحدیں نہیں ہوتیں اور اپنا زیادہ تر وقت وہاں گزارنے والے لوگ اس ملک کے شہری یا نیٹیزین کہلاتے ہیں۔
کسی بھی دوسرے ملک کے شہریوں کی طرح یہ سارے کے سارے نہ اچھے ہوتے ہیں اور نہ برے لیکن نامعلوم کیوں ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس وقت کی کمی نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ وہاں بے روزگاری زیادہ ہو اس لیے وہ دوسروں کے پھڈوں میں ٹانگ اڑائے بغیر باز نہیں آتے۔
کسانوں کے پیزا کھانے پر انہیں بہت اعتراض ہے۔
انڈیا میں کسان تین نئے قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور تقریباً تین ہفتوں سے کڑاکے کی سردی میں دہلی کی سرحد پر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ قانون واپس لے لو، حکومت کہہ رہی ہے کہ قانون واپس نہیں لے سکتے باقی جو کہو گے کر دیں گے۔
حکومت ان قوانین میں اتنی ترامیم کرنے کو تیار ہے کہ بعد میں ان کا صرف پرانا نام ہی باقی رہ جائے گا لیکن کسان بھی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ پیزا بھی کھائیں گے اور قانون واپس بھی کروائیں گے۔ انہیں بھی گھر لوٹنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت نئے زرعی قوانین واپس لے۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن یہ جو نیٹیزین ہیں، ان کی نگاہ سے کچھ نہیں بچتا۔ انہیں لگتا ہے کہ کسان اگر پیزا کھا رہے ہیں تو غریب یا پریشان کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس طرح کے کھانے تو لوگ پکنک پر کھاتے ہیں، اس لیے صاف ظاہر ہے کہ کسان تفریح کے لیے دلی آئے ہیں۔ ان کی عیش کی زندگی تو دیکھو۔ کئی سرحدوں پر ان کے چھوٹے چھوٹے شہر آباد ہو گئے ہیں، جہاں ان کے لیے خیمے لگائے گئے ہیں، گرما گرم کھانے اور چائے کا انتظام ہے، ناچ گانا بھی ہے اور درمیان میں جب فرست ملتی ہےتو تھوڑی زراعت میں اصلاحات کی بات بھی کر لیتے ہیں۔
انہیں لگتا ہے کہ دراصل یہ کسان نہیں ہیں بس حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں نے اپنے لوگ بٹھا رکھے ہیں۔
یہ ہی حکمت عملی شاہین باغ کے مظاہرین کو بدنام کرنے کے لیے اختیار کی گئی تھی۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ وہاں لوگ بیٹھ کر بریانی کھا رہے ہیں اور دھرنے میں حصہ لینے والی عورتوں کو روزانہ پانچ چھ سو روپیے دیے جاتے ہیں۔
اب ان بیچاروں کو کون سمجھائے کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے بھوکا رہنے کی شرط لازمی نہیں ہے، لوگ تو اسی کیفیت سے بچنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، اور نہ ہی آئین میں کہیں یہ لکھا ہے کہ دال روٹی کھانے والے پیزا یا بریانی کھانے والوں سے بہتر ہوتے ہیں۔
بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ کسان کیا کھا رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ حکومت ان کے ساتھ اتنی نرمی سے کیوں پیش آرہی ہے اور قوانین میں اتنی ساری ترامیم کرنے کے لیے کیوں تیار ہے۔

کسانوں کو کئی یونین تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اگر کسانوں کے مطالبات ناجائز ہیں تو قانون نہیں بدلے جانے چاہئیں، پھر چاہے وہ پیزا کھانے کی دھمکی دیں یا پاستا، اور اگر جلد بازی کی وجہ سے قوانین میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو انہیں واپس لے کر نئے قانون بنا دیے جائیں۔
حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ اس مسئلے کے تصفیے میں ہم انا کو بیچ میں نہیں آنے دیں گے اور جمہوریت میں اختلافات صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے اچھا پیغام اور کیا ہوسکتا ہے؟
جب کسانوں کا مسئلہ حل ہو جائے اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تو اچھا ہوگا کہ ان لوگوں کے خدشات بھی دور کر دیے جائیں جنہیں فکر ہے کہ شہریوں کے رجسٹر یا این آر سی کی آڑ میں انہیں ان کی شہریت سے محروم کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور یہ بھی طے ہوجائے گا کہ حکومت بریانی اور پیزا کھانے والے مظاہرین میں فرق نہیں کرتی۔

شیئر: