Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جرمنی نے عالمی جنگ میں خودکش طیاروں کا استعمال کیسے کیا؟

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپانی کاما کازی پائلٹوں نے خودکش حملوں کے ذریعے بحر الکاہل کے ساحل پر امریکیوں میں خوب دہشت پھیلائی، ان پائلٹس کو کامیکاز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کامیکاز کا مطلب ہے مقدس ہوا، پائلٹ دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنا جہاز دوسرے جہازوں، بحری بیڑے یا پھر کسی ایسے مقام سے ٹکرا دیا کرتے تھے جہاں دشمن کے فوجی موجود ہوتے، یہ طیارے زیادہ تر دوستسبشی زیرو ہوتے تھے۔ ان کا اصل نام دوستسبشی اے 6 ایم تھا تاہم خودکش حملوں کے لیے استعمال ہونے کے بعد یہ زیرو کے نام بھی مشہور ہوئے۔
تاریخی طور پر جاپان کے خودکش پائلٹوں کا کافی ذکر ملتا ہے، جنہوں نے بے شمار کامیاب کارروائیاں کیں تاہم سب سے نمایاں وہ پائلٹ رہے جنہوں نے 1945 میں یو ایس بنکر ہل طیارہ بردار بحری جہاز کو نشانہ بنایا تھا، اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

 

لیونیڈاس خودکش سکواڈرن
بحرالکاہل میں امریکیوں کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے پے در پے کارروائیاں کیں۔ فروری 1944 میں جرمنوں نے بھی یہی طریقہ کار استعمال کرنے پر تبادلہ خیال کیا اور مشرقی محاذ پر ان کو استعمال کرنے پر مشاورت ہوئی۔ سٹالن گراڈ اور کرسک کی سابقہ ​​لڑائیوں کے بعد جرمنوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اپنے بچاؤ کے لیے دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہوئے۔
جرمنی کے خودکش یونٹوں کی تشکیل کا خیال متعدد ممتاز جرمن فوجی اہلکاروں، جن میں ایس ایس انٹلیجنس اور آپریشن آفیسر اوٹو سکورزینی، ایئر فورس کے ہنس جوآخم ہررمین شامل تھے، کی تجاویز پر سامنے آیا جس سے ایس ایس یونٹ کے کمانڈر ہنرچ ہیملر بہت متاثر ہوئے۔
جرمنی کی فضائیہ کے عہدیداروں نے اس خود کش کارپوریشن کا نام لیونیداس سکواڈرن رکھا، جو کہ سپارٹا کے یونانی بادشاہ لیونیدس اول کے نام پر تھا، جس نے اپنے چند ہزار فوجیوں کی مدد سے 480 قبل مسیح میں تھرمو سٹائل کی ایک جنگ لڑی تھی اور فارسیوں کا بہت نقصان کیا تھا جس کا تخمینہ دو لاکھ فوجیوں تک ہے۔
مناسب طیارہ اور زندگی کا ضیاع
اس خود کش یونٹ کو بنانے کے عمل کے لیے جرمنوں نے موزوں ترین طیاروں کے انتخاب کے لیے تجربات کیے۔ ابتدائی طور پر سب نے میسرشمیٹ می 328 پر اتفاق کا اظہار کیا لیکن بعدازاں اس کی رفتار اور بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد نہ لے جا سکنے کے باعث ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد جرمنی نے ایک  فیسلر فائی 103R میزائل  تیار کیا، جو ڈرائیور کی نشست  کے ساتھ ایک کاک پٹ پر مشتمل ایک بہتر قسم کا V-1 میزائل تھا لیکن پائلٹوں کی جانب سے اسے مکمل طور پر قابو کیے جانے میں مشکلات کے باعث اس کو ترک کر دیا گیا۔
دوسری جانب جرمنی کی فضائیہ میں کثیر تعداد میں کمانڈروں نے خودکش دستہ بنانے کے خیال کی مخالفت کی اور اسے جنگ میں پائلٹوں کی جانوں کا ضیاع سمجھا، اس کے بعد جرمن فضائیہ خودکش دستے کے استعمال کے حوالے سے الجھن کا شکار بھی رہی۔

محدود کارروائیاں
بہرحال ان تمام باتوں اور ہچکچاہٹ کے باوجود بھی جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے دنوں میں خودکش طیاروں کا استعمال کیا جن کی وجہ سے ان کو بعض اہداف حاصل کرنے میں مدد بھی ملی۔ خودکش دستوں کے لیے میسسر شمیٹ بی ایف 109 طیاروں کو استعمال کیا گیا اور ان کے ایندھن کے ٹینکوں کو آدھا بھرا جاتا تھا۔
اس وقت کے جرمن ذرائع کے مطابق  35 خودکش طیاروں نے ان خودکش مشنز میں حصہ لیا تھا اور روسیوں کی پیش قدمی اور ان کو برلن پہنچنے سے باز رکھنے کے لیے درجنوں پل اور سڑکیں تباہ کیں۔

شیئر: