Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فیس بک نے دانستہ طور پر سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل پر پابندی نہیں لگائی‘

انڈیا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر ایک بار پھر سوال اٹھ رہا ہے کہ اسے ہندو نواز تنظیمیں کنٹرول کرتی ہیں۔
اس سے قبل جب یہ سوال اٹھا تھا کہ نفرت انگیز مواد کو ہٹانے کے معاملے پر اس نے ہندو نواز تنظیموں کے لیے جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے تو انڈیا میں فیس بک کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر انکھی داس کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
معروف امریکی اخبار دی وال سٹریٹ جرنل میں شائع رپورٹ کے بعد انڈیا میں وسیع پیمانے پر یہ رپورٹ شائع کی گئی کہ فیس بک نے اپنے سٹاف کی حفاظت کے پیش نظر دانستہ طور پر سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل پر پابندی نہیں لگائی۔

 

فیس بک انڈیا نے بجرنگ دل کو 'خطرناک تنظیم' قرار دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ اس سے ان کے سٹاف پر 'حملہ' ہو سکتا ہے اور یہ کہ اس کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سخت گیر ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کے جوائنٹ سیکرٹری سوریندر جین نے کہا ہے کہ تنظیم کو بدنام کرنے کی کوشش پر وال سٹریٹ جرنل کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ 'یہ مجموعی طور پر بجرنگ دل کے بہانے انڈیا کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، ہم اسے قبول نہیں کریں کے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔'

وال سٹریٹ جرنل نے کیا لکھا؟

 وال سٹریٹ جرنل کے مطابق جون کے مہینے میں دہلی کے پاس ایک چرچ پر حملے کے بعد بجرنگ دل پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ اس نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
فیس بک کی کنٹینٹ سیفٹی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ بجرنگ دل انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی حمایت کرتی ہے اور اسے 'خطرناک' قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
فیس بک نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ پر کہا ہے کہ 'نفرت انگیز مواد' کے خلاف اس کی پالیسی کسی پارٹی یا بزنس سے متاثر نہیں ہوتی۔
انڈیا میں حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے ٹوئٹر پر اس خبر سے متعلق ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 'مزید تصدیق ہوتی ہے کہ انڈیا میں فیس بک کو بی جے پی آر ایس ایس کنٹرول کرتی ہے۔'
انڈیا کی معروف صحافی سیما چشتی نے لکھا ہے کہ فیس بک انڈیا میں مفت واٹس ایپ سروس چلاتی ہے تاکہ اس کی اجارہ داری قائم رہے کیونکہ اس سے اسے ہر گھنٹے تقریباً 20 کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ انھوں نے ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کا سکرین شاٹ بھی شیئر کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 187 ممالک میں سے انڈیا میں فیس بک اور اس کی ذیلی کمپنیوں واٹس ایپ اور انسٹاگرام کے کاروباری مفادات سب سے زیادہ ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں