Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین میں پانچ لاکھ سے زیادہ اویغور جبری مشقت پر مجبور: امریکی تھنک ٹینک

چین کے صوبے سنکیانگ کپاس کی پیداوار کے لیے اہم ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ میں نسلی اقلیت کے ہزاروں مزدوروں کو ریاست کے تحت چلنے والی سکیم کے ذریعے زبردستی کپاس چننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار گلوبل پالیسی کی جانب سے ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس سے ملبوسات کے عالمی برانڈز نائیکی، گیپ اور اڈیڈاس پر مزید دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔
ان برانڈز پر الزام لگایا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل سپلائی چینز میں اویغور اقلیت سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ماورائے عدالت حراستی کیمپوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جس میں کم از کم دس لاکھ افراد قید ہیں۔
چین نے سنکیانگ میں اویغوروں کو جبری مشقت پر مجبور کرنے پر سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے تربیتی پروگرامز، روزگار کے سکیموں اور بہترین تعلیم کی وجہ سے خطے سے شدت پسندی کو ختم کر دیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ ٹریننگ سینٹرز ہیں جس میں شدت پسندی سے بچاؤ کی تربیت دی جاتی ہے۔
اس رپورٹ میں آن لائن سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد تین دیگر اکثریتی علاقوں میں ہیں اور 2018 کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد پانچ لاکھ 70 ہزار ہے۔
 

چین نے تردید کی ہے کہ نسلی اقلیتوں سے جبری مشقت نہیں لیتا (فوٹو: اے ایف پی)

محقیقین نے عالمی سطح پر کپاس کی فراہمی سے متعلق ’ممکنہ سنگین نتائج‘ سے خبردار کیا ہے۔ سنکیانگ دنیا کا 20 فیصد سے زیادہ کپاس کی پیداوار کر رہا ہے۔
بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نے 30 عالمی برانڈز سے پوچھا کہ ان نتائج کی بنیاد پر آیا وہ چین سے اپنی مصنوعات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں سے چار برانڈز نے جواب دیا کہ ان کی یہ سخت پالیسی تھی کہ چین سے حاصل کی جانے اشیا میں سنکیانگ کے کپاس استعمال نہ کیا جائے۔
بیجنگ نے کہا ہے کہ تمام زیر حراست افراد ان سینٹرز سے ’گریجویٹ‘ ہوئے ہیں تاہم رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان سینٹرز کے سابق اراکین کو درمیانے درجے کی فیکٹریوں میں منتقل کیا گیا ہے جس میں اکثر کیمپوں یا سینٹرز سے منسلک ہیں۔
تاہم تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزدورں کے منتقلی کی سکیم کے اراکین پر پولیس کی سخت نگرانی ہوتی ہے۔

عالمی برانڈز چین سے اپنی مصنوعات کے لیے خام مال حاصل کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس رپورٹ میں سرکاری دستاویزات سامنے لانے والے ایڈرین زینز کے مطابق ’یہ واضح ہے کہ کپاس چننے کے لیے مزدوروں کی منتقلی میں جبری مشقت کا زیادہ خطرہ شامل ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ اقلیتیں اس عمل میں کسی حد تک رضامندی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں اور ان کو مالی طور پر فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ بیان کرنا ناممکن ہے کہ کہاں زبردستی ختم ہوتی ہے اور کہاں سے مقامی رضا مندی شروع ہوتی ہے۔‘
چین نے سنکیانگ میں اویغوروں کو جبری مشقت پر مجبور کرنے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے تربیتی پروگرامز، روزگار کے سکیموں اور بہترین تعلیم کی وجہ سے خطے سے شدت پسندی کو ختم کر دیا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ کچھ فیکٹریاں حراستی مراکز سے منسلک ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جب اس رپورٹ کے حوالے سے پوچھا گیا تو بیجنگ نے کہا کہ ’سنکیانگ میں تمام نسلی اقلیتیں مزدوری کے معاہدوں پر کمپنی کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں جو ان کی مرضی کے پیشے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔‘
رواں مہینے کے آغاز میں امریکہ نے سنکیانگ سے کپاس کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں