Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اردوغان نے نظم کیوں پڑھی‘، ایران اور ترکی میں بیان بازی

ترک صدر کے دورہ آذربائیجان کے دوران پڑھی جانے والی نظم پر تنقید کی گئی ہے۔ فوٹو اے پی
ایران کے ترک صدر طیب رجب اردوغان کے خلاف جارحانہ زبان استعمال کرنے پر ترکی نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران نے ترک صدر اردوغان کے دورہ آذربائیجان کے دوران پڑھی جانے والی ایک نظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایران میں علیحدگی پسند عناصر کو اکسا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کی آرمینیا پر فتح کے بعد ترک صدر طیب رجب اردوغان نے جمعرات کو اتحادی ملک آذربائیجان کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ترک صدر نے ایک نظم پڑھی تھی جس کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ یہ آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ سرحد پر قائم صوبوں میں رہنے والی آذری کمیونٹی میں علیحدگی پسندانہ جذبات کو ہوا دے سکتی ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ سرحد پر ایران کے شمال مغربی علاقوں میں آذری کمیونٹی بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے نظم پر ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ صدر اردوغان کو معلوم نہیں کہ دارالحکومت باکو میں پڑھی جانے والی نظم آراس کے شمال میں واقع علاقوں کی ایران سے زبردستی علیحدگی کے حوالے سے ہے۔ 
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ’اسنا‘ کے مطابق نظم سیاسی تحریک ’پاک ترکیسم’ کے علیحدگی پسند عنصر کی علامت ہے۔
اسنا نیوز ایجنسی کے مطابق نظم کے اشعار میں آراس دریا کے دونوں اطراف رہنے والی آذری کمیونٹی کے درمیان فاصلے کا شکوہ کیا جا رہا ہے۔
ایران نے تہران میں تعینات ترک سفیر کو بھی طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔

نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کو آرمینیا پر فتح حاصل ہوئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایرانی حکام نے ترک صدر طیب رجب اردوغان کے تاثرات کو مداخلت پسندانہ قرار دیتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
دوسری جانب ترکی نے ایران کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ایران کے سفیر کو طلب کیا ہے۔
صدر اردوغان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ایران کی جانب سے ’جارحانہ زبان‘ استعمال کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ نظم کے مطلب کو جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں ایران اور ترکی کے درمیان معاشی تعاون میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم دونوں ممالک کے درمیان مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے کئی علاقوں سے متعلق پالیسی میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

شیئر: