Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصغر خان: جدوجہد سے بھرپور زندگی گزارنے والا پاک فضائیہ کا سربراہ

اصغر خان نے قائداعظم سے انڈونیشیا جا کر لڑنے کی اجازت مانگی (فوٹو: ڈان نیوز)
سنہ 1945 میں انڈونیشیا کے عوام ہالینڈ سے آزادی کے لیے برسرِپیکار تھے۔ اس معرکے میں انڈونیشیا کو فائٹر پائلٹ چاہیے تھے جس کے لیے ان کے رہنما سوئیکارنو نے باقاعدہ اپیل کی تھی۔
انڈین ملٹری کے ایک مسلمان پائلٹ کے دل میں آزادی کے متوالوں کی مدد کی تمنا جاگی۔ کسی حتمی فیصلے سے پہلے نوجوان، قائد اعظم محمد علی جناح سے مشورے کا طالب ہوا۔ دلی میں ان سے ملاقات میں عرض کی کہ قیامِ پاکستان کے بارے میں صورتحال واضح نہیں۔ آیا میں انڈونیشیا چلا جاﺅں یا نہیں؟
قائد اعظم نے اسے بڑے یقین سے بتایا کہ پاکستان ضرور بنے گا۔ نوجوان سے انھوں نے نئے وطن کی خدمت کے لیے انتظار کرنے کو کہا، جس پر اس نے صاد کیا۔
اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ محمد اصغر خان نام کا یہ پائلٹ 36 برس کی عمر میں پاک فضائیہ کا پہلا مسلمان کمانڈر انچیف بنے گا۔
قائداعظم محمد علی جناح سے اصغر خان کی دوسری ملاقات 14اگست 1947 کو کراچی میں گورنر جنرل ہاﺅس میں ایک اسقبالیے کے دوران ہوئی، جہاں لیفٹیننٹ کرنل اکبر خان نے بانی پاکستان کے سامنے برطانوی افسروں کو پاکستانی فوج میں اعلیٰ عہدے دینے کی پالیسی پر مایوسی ظاہر کی۔
اصغر خان نے اپنی کتاب ’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ‘میں لکھا ہے کہ قائد اعظم نے اکبر خان کی باتیں تحمل سے سننے کے بعد اپنی انگلی بلند کی اور فرمایا: ’یہ مت بھولیں کہ آپ عوام کے نوکر ہیں۔ پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں۔ یہ ہمارا یعنی عوام کے نمائندوں کا کام ہے۔ منتخب حکومتوں کے احکامات کی تعمیل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
اصغر خان کے بقول ’ظاہر ہے کہ قائد اعظم کے ان الفاظ کا اکبر خان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور چند ہی سال میں انھوں نے لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔
جسے’پنڈی سازش‘کا نام دیا گیا۔ اور کراچی میں قائداعظم کے کہے گئے ان الفاظ کے بعد کئی بار اس طرح کی کوششیں ہوتی رہیں اور کم ازکم تین مواقع پر کامیاب بھی ہوئیں۔
سنہ 1957 سے 1965 تک پاک فضائیہ کی کمان اصغر خان کے پاس رہی، اس عرصے میں انھوں نے فضائی فوج کی تعمیر وترقی کے لیے بڑی تندہی سے کام کیا۔ جنگِ ستمبر سے کچھ ہی عرصہ پہلے وہ ریٹائر ہوئے لیکن قوم پر کڑا وقت آیا تو انھوں نے فی الفور اپنی خدمات پیش کردیں۔
پاک فضائیہ کی حکمت عملی کی تشکیل میں وہ شریک رہے۔ دوران جنگ حکومتی نمائندے کی حیثیت سے دفاعی سازو سامان کے لیے چین، انڈونیشیا، ایران اور ترکی کا دورہ کیا۔ چواین لائی سے ملے تو انھوں نے پاک فضائیہ کی کارکردگی پر انہیں مبارکباد دی۔

اصغر خان کی پاک فضائیہ سے جذباتی وابستگی کی قوی وجہ قومی ہی تھی (فوٹو: فیس بک اصغر خان)

سنہ 1945میں سوئیکارنو کی اپیل پر وہ فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے انڈونیشیا نہ جاسکے لیکن پھر یہ وقت بھی آیا کہ 1964 میں انڈونیشیا میں پاک فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت سے سوئیکارنو سے ملے، اور جنگ ستمبر کے ہنگام ایوب خان کا پیغام لے کر ان سے ملنے پہنچے تھے۔
اس مشکل گھڑی میں انڈونیشیا کے لیڈر نے جس طرح پاکستان کی اعانت کی اس کے بارے میں اصغر خان نے اپنی کتاب ’دی فرسٹ راﺅنڈ:پاک و ہند جنگ 1965(اردو ترجمہ:زہیر صدیقی) میں لکھا:
’جہاں تک مجھے معلوم ہے کسی دوسرے شخص نے اس نازک گھڑی میں پاکستان دوستی کا ایسا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی پرخلوص اور برادرانہ پیشکش کو پاکستان کی آئندہ نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی اور اگر خود سوئیکارنو کے ہم وطنوں نے اسے بھلا بھی دیا تو پاکستانی قوم یہ کبھی نہیں بھولے گی کہ ہمارے ملک پر جب وقت پڑا تھا تو انڈونیشیا نے اپنے اسلحہ خانے کی کنجی ہمارے حوالے کردی تھی۔
اسی کتاب میں ایک جگہ بتایا کہ ’سوئیکارنو نے کہا کہ وہ پاکستان پر ہندوستانی حملے کو انڈونیشیا پر حملہ تصور کرتے ہیں۔‘
اصغر خان کی پاک فضائیہ سے جذباتی وابستگی کی قوی وجہ قومی ہی تھی لیکن ایک وجہ اور بھی تھی جسے انھوں نے کچھ یوں بیان کیا:
’فضائیہ سے میری جذباتی وابستگی کی تہہ میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے دو بھائی آصف اور خالد، اس کی خدمت میں جان دے چکے تھے۔ ایک 1948 میں ایک حادثے میں جان بحق ہوا، یہ ہماری ائیر فورس کا پہلا حادثہ تھا جس میں کوئی جانی نقصان ہوا۔
دوسرا بھائی دس برس بعد ایک فضائی حادثے میں ختم ہوگیا۔ ان سانحوں نے میرے دل پر جو داغ چھوڑے ان کی گہرائی کا پورا اندازہ میرے قریبی دوستوں تک کو نہیں۔ ذاتی صدمے سے قطع نظر، انھوں نے میرے اور فضائی فوج کے درمیان ایسا گہرا رشتہ قائم کردیا جسے وقت کی رفتار نہیں مٹا سکتی۔
اصغر خان کی پیشہ ورانہ زندگی بڑی صاف ستھری تھی۔ وہ ایک بااصول انسان تھے۔ سنہ 1942 میں انھیں سانگھڑ کے قریب پیر پگاڑا کے قافلے پر ہوائی حملے کا حکم ملا تو انھوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کے بقول ’میں نے جب دیکھا کہ پیر پگاڑا کا قافلہ غیر مسلح افراد پر مشتمل ہے اور اس میں عورتیں اور بچے شامل ہیں تو میں نے ان کے احکامات ماننے سے انکار کردیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایوب خان کے خلاف ان کی آواز بلند ہوتی چلی گئی (فوٹو: ونٹیج پاکستان)

پاک فضائیہ سے سنہ 1965 ریٹائرمنٹ کے بعد اصغر خان تین برس پی آئی اے کے سربراہ رہے۔ سنہ 1968 میں ریٹائرمنٹ کے بعد ایبٹ آباد میں ان کے شب و روز گزرنے لگے۔
 اس زمانے میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا تھا۔ ایوب خان کے مخالف صف آرا ہو رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وہ ایوب خان کو للکار رہے تھے۔
بھٹو نے اصغر خان کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی جو انھوں نے قبول نہ کی۔ نومبر1968 میں بھٹو کی گرفتاری نے انھیں میدانِ عمل میں اترنے پر مجبور کیا۔
ان کے بقول ’بھٹو کی گرفتاری کے بعد میں نے محسوس کیا کہ عوام کے حقوق کے لیے کوئی آواز ضرور اٹھنی چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں ان کے خطاب کا لوگوں پر بڑا اثر ہوا جس کے بعد ملک بھر سے بار ایسوسی ایشنز نے انھیں خطاب کی دعوت دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایوب خان کے خلاف ان کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔
29 جنوری 1969کو انھوں نے ’ہلال پاکستان‘ اور ’ہلال امتیاز‘کے اعزازات، فوجی حکومت کو لوٹا دیے۔
اصغر خان کی اس دور میں مقبولیت کا کیا عالم تھا، اس کا اندازہ معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب ’اخبار کی راتیں‘ کے اس اقتباس سے کیا جاسکتا ہے:
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت ایوب خان کے خلاف تحریک بھٹو نہیں، اصغر خان چلا رہے تھے اور مقبول ہورہے تھے۔ اب پیپلزپارٹی والوں کو بتاتا ہوں تو وہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

اصغر خان نے یحییٰ خان پر زور دیا کہ وہ مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو سونپ دیں (فوٹو: دی وائر)

سنہ 1970 کے الیکشن میں اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال بری طرح ناکام ہوئی۔ البتہ مشرقی پاکستان کے بحران میں ان کا سیاسی کردار مثبت رہا۔ انھوں نے فوجی آپریشن کی مخالفت اور یحییٰ خان پر زور دیا کہ وہ مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو سونپ دیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اصغر خان ان کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے رہے، اس کی قیمت بھی ادا کی۔ انھیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بھٹو نے ’آلو خان‘ کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا۔
 اصغر خان ان کی مخالفت میں اس حد تک گئے کہ انھیں کوہالہ پل پر پھانسی دینے کی ناروا بات کی۔
پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان نیشنل الائنس بنا جس نے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی، اصغر خان اس اتحاد کے نمایاں لیڈر تھے۔
انھوں نے اس تحریک کے دوران مسلح افواج کے نام ایک خط لکھا جس میں انھیں بغاوت پر اکسایا گیا تھا۔ یہ خط ان کی سیاسی زندگی میں ایک ایسا سوال بن گیا جس کا وہ عمر بھر تشفی بخش جواب نہ تراش سکے۔
پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں بھٹو اقتدار سے ہٹ گئے۔ سادہ لوح اصغر خان  یہ سمجھ رہے تھے کہ ضیاالحق الیکشن کروا دیں گے۔ ملکی سیاست میں مائنس بھٹو ہونے پر ان کا خیال تھا کہ امکانات کے نئے دریچے کھلیں گے۔
لیکن پھر ان پر کھلا کہ ضیا اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے میں سنجیدہ نہیں تو وہ ان کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔

حالات نے پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال کو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا (فوٹو: سکرول)

 ضیا کی ڈکٹیر شپ کے خلاف مختلف پارٹیوں نے جن میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے نام سے اتحاد بنایا تو اصغر خان اس کا حصہ بنے۔
 اس سیاسی ملاپ کا بنیادی مقصد تھا کہ مارشل لا ختم کرکے ملک میں آزادانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے۔  ضیاالحق کے دور میں وہ  پانچ سال گھر میں نظر بند رہے۔
اصغر خان کا شمار بھٹو کے کٹر مخالفین میں ہوتا تھا لیکن حالات نے پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال کو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا۔
سنہ 1990 میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد ہوگیا۔ اصغر خان لاہور سے نواز شریف کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔ یہ وہی نواز شریف تھے جن کے سیاسی کیرئیر کا آغاز تحریک استقلال سے ہوا تھا۔
سنہ 1993 میں انھوں نے صدارتی امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرائے لیکن بعد ازاں انھیں واپس لے لیا۔
اصغر خان سیاست میں ایجنسیوں کے کردار کے سخت ناقد رہے۔ سنہ 1996میں پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ 1990 کے انتخابات میں صدر غلام اسحاق خان کے کہنے پر آئی ایس آئی نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے۔
اس پر اصغر خان نے چیف جسٹس سے اس غیرقانونی فعل پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
اس کیس کی سماعت شروع تو ہوگئی لیکن اس کا فیصلہ آنے میں ’صرف‘ سولہ برس لگے۔ عمل درآمد کی نوبت کا مرحلہ ہنوز نہیں آیا۔ پاکستانی کی عدالتی تاریخ میں اس کیس کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ اسے اصغر خان کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سیاسی زندگی کے آخری حصے میں اصغر خان کی عمران خان کے ساتھ بہت ذہنی قربت رہی (فوٹو: فیس بک اصغر خان)

سیاسی زندگی کے آخری حصے میں اصغر خان کی عمران خان کے ساتھ بہت ذہنی قربت رہی۔1997 اور 2002 میں تحریک انصاف کی بری طرح ناکامی پر لوگوں نے عمران خان کو پاکستانی سیاست کا اصغر خان بھی قرار دیا۔
اصغر خان کی کتاب ’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘ کی لاہور میں تقریب رونمائی ہوئی تو اس میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انھیں طنزاً اصغر خان کہا جاتا ہے لیکن وہ اس پر برا نہیں مانتے بلکہ یہ بات ان کے لیے باعث فخر ہے۔ اصغر خان کا عمران خان پر یہ بے پناہ اعتماد ہی تھا کہ انھوں نے 2012 میں اپنی پارٹی کو تحریک انصاف میں ضم کردیا۔
اصغر خان کے بیٹے عمر اصغر بھی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر رہے۔ قومی جمہوری پارٹی بھی قائم کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ جڑ پکڑتی 2002 میں انھیں موت کا بلاوا آگیا۔ اصغر خان کے بقول، عمر اصغر ان کی جدوجہد اور امیدوں میں شامل تھے۔
اصغر خان جدوجہد سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 97 برس کی عمر میں، پانچ جنوری 2018 کو راولپنڈی میں انتقال کرگئے۔

شیئر: